کو عنقریب ہے۔ سو حضرت مسیح کے علم غیب سے بے بہرہ ہونے کے لئے یہی چند شہادتیں کافی ہیں جو کسی اور کتاب سے نہیں بلکہ چاروں انجیل سے دیکھ کر ہم نے لکھی ہیں۔ دوسرے اسرائیلی نبیوں کا بھی یہی حال ہے حضرت یعقوب ہی تھے مگر انہیں کچھ خبر نہ ہوئی کہ اُسی گاؤں کے بیابان میں میرے بیٹے پر کیا گزر رہا ہے۔ حضرت دانیال اس مدت تک کہ خدائے نے بخت النصر کے رؤیا کی ان پر تعبیر کھول دی کچھ بھی علم نہیں رکھتے تھے کہ خواب کیا ہے اور اس کی تعبیر کیا ہے؟ پس اس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ نبی کا یہ کہنا کہ یہ بات خدا کو معلوم ہے مجھے معلوم نہیں بالکل سچ اور اپنے محل پر چسپاں اور سراسر اس نبی کا شرف اور اس کی عبودیت کا فخر ہے بلکہ ان باتوں سے اپنے آقائے کریم کے آگے اس کی شان بڑھتی ہے نہ یہ کہ اس کے منصب بنوۃ میں کچھ فتور لازم آتا ہے ہاں اگر یہ تحقیق منظور ہو کہ خدا تعالیٰ کے اعلام سے جو اسرار غیب حاصل ہوتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر ہوئے ہیں تو میں ایک بڑا ثبوت اس بات کا پیش کرنے کیلئے تیار ہوں کہ جس قدر توریت و انجیل اور تمام بائبل میں نبیوں کی پیشگوئیاں لکھی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیاں کماً و کیقاً ہزار حدیث سے بھی ان سے زیادہ ہیں جن کی تفصیل احادیث نبویہ کے رو سے جو بڑی تحقیق سے قلم بند کی گئی ہیں معلوم ہوتی ہے اور اجمالی طور پر مگر کافی اور اطمینان بخش اور نہایت مؤثر بیان قرآن شریف میں موجود ہے پھر دیگر اہل مذاہب کی طرح مسلمانوں کے ہاتھ میں صرف قصہ ہی نہیں بلکہ وہ تر ہر صدی میں غیر قوموں کو کہتے رہے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ یہ سب برکات اسلام میں ہمیشہ کے لئے موجود ہیں۔ بھائیو! آؤ اوّل آزماؤ پھر قبول کرو۔ مگر اُن آواروں کو کوئی نہیں سنتا۔ حجت الٰہی ان پر پوری ہے کہ ہم بلاتے ہیں وہ نہیں آتے اور ہم دکھاتے ہیں وہ نہیں دیکھتے انہوں نے آنکھوں اور کانوں کا بُکلّی ہم سے پھیر لیا تا نہ ہو کہ وہ سنیں اور دیکھیں اور ہدایت پائیں۔ دوسری غلط فہمی جو معترض نے پیش کی ہے یعنی یہ کہ اصحاب کہف کی تعداد کی بابت قرآن شریف میں غلط بیان ہے۔ یہ نرا دعویٰ ہے معترض نے اس بارے میں