اور کیوں اپنے تئیں اور اپنے حواریوں کو بھی تقید سے اس لا حاصل مشقت میں ڈالتے۔ سو بقول معترض صاحب ان کے دل میں یہی تھا کہ انجام خدا کو معلوم ہے۔ مجھے معلوم نہیں پھر ایسا ہی حضرت مسیح کی پیشگوئی کا صحیح نہ نکلنا دراصل اسی وجہ سے تھا کہ بباعث عدم علم براسرار مخفیہ اجتہادی طور پر تشریح کرنے میں اُن سے غلطی ہو جاتی تھی۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ جب نئی خلقت میں ابن آدم اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تو بھی (اے میرے بارہ حواریو) بارہ تختوں پر بیٹھو گے۔ دیکھو باب ۲۰۔ آیت ۲۸۔ متی‘‘۔ لیکن اسی انجیل سے ظاہر ہے کہ یہودہ اسکریوطی اس تخت سے بے نصیب رہ گیا۔ اس کے کانوں نے تخت نشینی کی خبر سن لی مگر تخت پر بیٹھنا اُسے نصیب نہ ہوا۔ اب راستی اور سچائی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت مسیح کو اس شخص کے مرتد اور بد عاقبت ہونے کا پہلے سے علم ہوتا تو کیوں اس کو تخت نشینی کی جھوٹی خبر سناتے۔ ایسا ہی ایک مرتبہ آپ ایک انجیر کا درخت دور سے دیکھ کر انجیر کھانے کی نیت سے اس کی طرف گئے مگر جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس پر ایک بھی انجیر نہیں تو آپ بہت ناراض ہوئے اور غصہ کی حالت میں اس انجیر کو بدعا دی جس کا کوئی بد اثر انجیر پر ظاہر نہ ہوا۔ اگر آپ کو کچھ غیب کا علم ہوتا تو بے ثمر درخت کی طرف اس کا پھل کھانے کے ارادہ سے کیوں جاتے۔ ایسا ہی ایک مرتبہ آپ کے دامن کو ایک عورت نے چھوا تھا تو آپ چاروں طرف پوچھنے لگے کہ کس نے میرا دامن چھوا ہے۔ اگر کچھ علم غیب سے حصہ ہوتا تو دامن چھونے والے کا پتہ معلوم کرنا تو کچھ بڑی بات نہ تھی اور ایک مرتبہ آ پ نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ اس زمانہ کے لوگ گزر نہ جائیں گے جب تک یہ سب کچھ (یعنی مسیح کا دوبارہ دنیا میں آنا اور ستاروں کا گرنا وغیرہ) ظاہر نہ ہولے۔ لیکن ظاہر ہے کہ نہ اس زمانہ میں کوئی ستارہ آسمان کا زمین پر گرا اور نہ حضرت مسیح عدالت کیلئے دنیا میں آئے اور وہ صدی تو کیااس پر اٹھارہ صدیاں اور بھی گزر گئیں اور انیسویں گزرنے