اورمعامہ ہو گاا ور اپنے نفس سے زیادہ اَکل و شرب میں ان کی رعایت رکھتی جاوے گی۔ ہاں اگر کوئی اس قسم کی تکلیف ہو جس کو اس گاؤں میں ہم لوگ اُٹھاتے ہیں اور اس کا دفع اور ازالہ ہماری طاقت اور استطاعت سے باہر ہے۔ اس میں ہمارے مہمان ہماری حالت کے شریک رہیں گے اور اس بات کو آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر ہر یک منصف سمجھ سکتا ہے کہ جس حالت میں ہم نے دو سَو روپیہ ماہواری دینا قبول کیا اور اس کے ادا کے لئے ہر طرح تسلی بھی کر دی تو ہم نے اپنے اس فرض کو ادا کر دیا یا جو کسی کا پورا پورا ہرجہ دینے کیلئے ہمارے سر پر تھا۔ رہا تجویز مکان و دیگر لوازم مہمانداری سو یہ زواید ہیں جن کو ہم نے محض حسن اخلاق کیطور پر اپنے ذمہ آپ لے لیا ہے۔ ورنہ ہر یک باانصاف آدمی جانتا ہے کہ جس شخص کو پورا پورا ہرجہ اس کی حیثیت کے موافق بلکہ اس سے بڑھ کر دیا جائے تو پھر اور کوئی مطالبہ اس کا بیجا ہے۔ اس کو تو خود مناسب ہے کہ اگر زیادہ تر آرام پسند اور آسائش دوست ہے تو اپنی آسائش کے لئے آپ بندوبست کرے۔ جیسا اس حالت میں بندوبست کرتا کہ جب وہ دو سَو روپیہ نقد کسی اور جگہ سے بطور نوکری پاتا۔ غرض جس قدر علاوہ ادائے ہرجہ کے ہم سے کسی کی خدمت ہو جاوے اس میں تو ہمارا ممنون ہونا چاہئے کہ ہم نے علاوہ اصل شرط کے بطور مہمانوں کے اس کو رکھا نہ کہ الٹی نکتہ چینی کی جائے کیونکہ یہ تو تہذیب اور اخلاق اور انصاف سے بہت بعید ہے اور اس مقام میں مجھ کو ایک سخت تعجب یہ ہے کہ اگر ایسے شرائط جو آپ نے پیش کئے کوئی اور شخص کسی فرقہ مخالف کا پیش کرتا تو کچھ بعید نہ تھا۔ مگر آپ لوگ تو حضرت مسیح علیہ السلام کے خادم اور تابع کہلاتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا دم مارتے ہیں۔ سو یہ کیسی بھول کی بات ہے کہ آپ حضرت مسیح کی سیرت کو چھوڑے جاتے ہیں کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح ایک مسکین اور درویش