تو دیکھتے ہیں اور جب سناتی ہے تو سنتے ہیں اور جب تک خدا تعالیٰ ان پر کوئی پوشیدہ بات ظاہر نہیں کرتا تب تک انہیں اس بات کی کچھ خبر نہیں ہوتی۔ تمام نبیوں کے حالات زندگی (لایف) میں اس کی شہادت پائی جاتی ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف ہی دیکھو کہ وہ کیونکر اپنی لاعلمی کا اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دن اور اس گھڑی کی بابت سوا باپ کے نہ تو فرشتے جو آسمان پر ہیں نہ بیٹا کوئی نہیں جانتا۔ باب ۱۳۔ آیت ۳۲۔ مرقس
اور پھر وہ فرماتے ہیں کہ میں آپ سے کچھ نہیں کرتا (یعنی کچھ نہیں کر سکتا) مگر جو میرے باپ نے سکھلایا وہ باتیں کہتا ہوں کسی کو راستبازوں کے مرتبہ تک پہنچانا میرے اختیار میں نہیں مجھے کیوں نیک کہتا ہے نیک کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا۔ مرقس
غرض کسی نبی نے بااقتدار یا عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں کیا دیکھو اس عاجز بندہ کی طرف جس کو مسیح کر کے پکارا جاتا ہے اور جسے نادان مخلوق پرستوں نے خدا سمجھ رکھا ہے کہ کیسے اس نے ہر مقام میں اپنے قول اور فعل سے ظاہر کر دیا کہ میں ایک ضعیف اور کمزور اور ناتواں بندہ ہوں اور مجھ میں ذاتی طور پر کوئی بھی خوبی نہیں اور آخری اقرار جس پر ان کا خاتمہ ہوا کیسا پیارے لفظوں میں ہے۔ چنانچہ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ
یعنی مسیح اپنی گرفتاری کی خبر پا کر گھبرانے اور بہت دلگیر ہونے لگا اور ان سے (یعنی حواریوں سے) کہا کہ میر ی جان کا غم موت کا صا ہے اور وہ تھوڑا آگے جا کر زمین پر گر پڑا (یعنی سجدہ کیا) اور دعا مانگی کہ اگر ہوسکے تو یہ گھڑی مجھ سے ٹل جائے اور کہا کہ اے ابّا اے باپ سب کچھ تجھ سے ہو سکتا ہے اس پیالہ کو مجھ سے ٹال دے یعنی تو قادر مطلق ہے اور میں ضعیف ہوں اور عاجز بندہ ہوں تیرے ٹالنے سے یہ بلا ٹل سکتی ہے اور آخر ایلی ایلی لما سبقتنی کہہ کر جان دی۔ جس کاترجمہ یہ ہے کہ ’’اے میرے خدا ! اے میرے خدا!! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا‘‘
اب دیکھئے کہ اگرچہ دعا قبول نہ ہوئی کیونکہ تقدیر مبرم تھی۔ ایک مسکین مخلوق کی خالق کے قطعی ارادہ کے آگے کیا پیش جاتی تھی۔ مگر حضرت مسیح نے اپنی عاجزی اور بندگی کے اقرار کو نہایت تک پہنچا دیا۔ اس امید سے کہ شاید قبول ہو جاوے۔ اگر انہیں پہلے سے علم ہوتا کہ دعا رد کی جائے گی ہرگز قبول نہیں ہوگی تو وہ ساری رات برابر فجر تک اپنے بچاؤ کے لئے کیوں دعا کرتے رہتے