کی طرح ہر ایک مخفی بات کا بالاستقلال اس کو علم بھی ہو بلکہ اپنے دناتی اقتدار اور اپنی ذاتی خاصیت سے عالم الغیب ہونا خدا تعالیٰ کی ذات کا ہی خاصہ ہے۔ قدیم سے اہل حق حضرت واجب الوجود کے علم غیب کی نسبت دجوب ذاتی کا عقیدہ رکھتے ہیں اور دوسرے تمام ممکنات کی نسبت امتناع ذاتی اور امکان بالواجب غراسمہ کا عقیدہ ہے یعنی یہ عقیدہ کہ خدا تعالیٰ کی ذات کے لئے عالم الغیب ہونا واجب ہے اور اس کے ہویت حقہ کی یہ ذاتی خاصیت ہے کہ عالم الغیب ہو مگر ممکنات کے جو ہالکۃ الذات اور باطلہ الحقیقت ہیں اس صفت میں اور ایسا ہی دوسری صفات میں شراکت بحضرۃ باری غراسمہ جائز نہیں اور جیسا ذات کے رو سے شریک الباری ممتنع ہے ایسا ہی صفات کے رو سے بھی ممتنع ہے۔ پس ممکنات کیلئے نظر اعلیٰ ذاتہم عالم الغیب ہونا ممقات میں سے ہے۔ خواہ نبی ہوں یا ولی ہوں ہاں الہام الٰہی سے اسرار غیبیہ کو معلوم کرنا یہ ہمیشہ خاص اور برگزیدہ کو حصہ ملتا رہا ہے جس کو ہم تابعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں پاتے ہیں نہ کسی اور میں عادۃ اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ کبھی کبھی اپنے مخصوص بندوں کو اپنے بعض اسرار خاصہ پر مطلع کر دیتا ہے اور اوقات مقررہ اور مقدرہ میں رشح فیض غیب ان پر ہوتا ہے بلکہ کامل مقرب اللہ اُسی آزمائے جاتے ہیں اور شناخت کئے جاتے ہیں کہ بعض اوقات آئندہ کی پوشیدہ باتیں یا کچھ چھپے اسرار نہیں بتلائے جاتے ہیں۔ مگر یہ نہیں کہ ان کے اختیار اور ارادہ اقتدار سے بلکہ خدا تعالیٰ کے ارادہ اور اختیار اور اقتدار سے یہ سب نعمتیں انہیں ملتی ہیں۔
وہ جو اس کی مرضی پر چلتے ہیں اور اُسی کے ہو رہتے ہیں اور اسی میں کھوئے جاتے ہیں۔ اس خیر محض کی ان سے کچھ ایسی ہی عادت ہے کہ اکثر ان کی سنتا اور اپنا گزشتہ فعل یا آئندہ کا منشاء بسا اوقات ان پر ظاہر کر دیتا ہے۔ مگر بغیر اعلام الٰہی انہیں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا وہ اگرچہ خدا تعالیٰ کے مقرب تو ہوتے ہیں مگر خدا تو نہیں ہوتے سمجھائے سمجھتے ہیں بتلائے جانتے ہیں۔ دکھلائے دیکھتے ہیں بولائے بولتے ہیں اور اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں ہوتے جب طاقت عظمیٰ انہیں اپنے الہام کی تحریک سے بلاتی ہے تو وہ بولتے ہیں اورجب دکھاتی ہے