یامجنونوں کو شفا بخشنا کچھ بھی کمال کی بات نہیں۔ بلکہ اس میں ایماندار ہونا بھی ضرور نہیں۔ چہ جائیکہ نبوت یا ولایت پر یہ دلیل ہو سکے ان کا یہ بھی قول ہے کہ عمل سلب امراض بدنیہ کی کامل مشق اور اُسی شغل میں دن رات اپنے تئیں ڈالے رکھنا روحانی ترقی کیلئے سخت مضر ہے اور ایسے شخص کے ہاتھ سے روحانی تربیت کا کام بہت ہی کم ہوتا ہے اور قوت منورہ اس کے قلب کی بغایت درجہ گھٹ جاتی ہے۔ خیال ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام اپنی روحانی تربیت میں بہت کمزور نکلے جیسا کہ پادری ٹیلر صاحب جو باعتبار عہدہ و نیز بوجہ لیاقت ذاتی کے ایک ممتاز آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ وہ نہایت افسوس سے لکھتے ہیں کہ مسیح کی روحانی تربیت بہت ضعیف اور کمزور ثابت ہوتی ہے اور اُن کے صحبت یافتہ لوگ جو حواریوں کے نام سے موسوم تھے اپنے روحانی تربیت یافتہ ہونے میں اور انسانی قوتوں کی پوری تکمیل سے کوئی اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھلا نہ سکے (کاش حضرت مسیح نے اپنے ظاہری شغل سلب امراض کی طرف کم توجہ کی ہوتی اور وہی توجہ اپنے حواریوں کی باطنی کمزوریوں اور بیماریوں پر ڈالتے خاص کر یہودا اسکریوطی پر) اس جگہ صاحب موصوف یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابہؓ کے مقابلہ پر حواریوں کی روحانی تربیت یابی اور دینی استقامت کا موازنہ کیا جائے تو ہمیں افسوس کے ساتھ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح کے حواری روحانی طور پر تربیت پذیر ہونے میں نہایت ہی کچے اور پیچھے رہے ہوئے تھے اور ان کے دماغی اور دلی قویٰ کو حضرت مسیح کی صحبت نے کوئی ایسے توسیع نہیں بخشی تھی جو صحابہ نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مقابل پر کچھ قابل تعریف ہو سکے بلکہ حواریوں کے قدم قدم میں بزدلی سست اعتقادی تنگدلی و دنیا طلبی بیوفائی ثابت ہوتی تھی۔ مگر صحابہؓ نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے وہ صدق وفا ظہور میں آیا جس کی تغیر کسی دوسرے نبی کے پیروؤں میں ملنا مشکل ہے سو یہ اس روحانی