دور ہو جاتی تھیں۔ جیسا کہ خود انجیل مذکور ہے۔ پھر ماسوائے اس کے زنانہ دراز کی تحقیقاتوں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ بلکہ صلب امراض منجملہ علوم کے ایک علم ہے جس کے اب بھی بہت لوگ مشاق پائے جاتے ہیں جس میں شدت توجہ اور دماغی طاقتوں کے خرچ کرنے اور جذب خیال کا اثر ڈالنے کی مشق درکار ہے۔ سو اس علم کو نبوت سے کچھ علاقہ نہیں بلکہ مرد صالح ہو نا بھی اس کے لئے ضروری نہیں اور قدیم سے یہ علم رائج ہوتا چلا آیا ہے۔ مسلمانوں میں بعض اکابر جیسے محی الدین عربی صاحب فصوص اور بعض نقشبندیوں کے اکابر اس کام میں مشاق گزرے ہیں۔ ایسے کہ ان کے وقت میں ان کی نظیر پائی نہیں گئی بلکہ بعض کی نسبت ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اپنی کامل توجہ سے باذنہٖ تعالیٰ تازہ مردوں سے باتیں کر کے دکھلا دیتے تھے٭ اور دو دو تین تین سَو بیماروں کو اپنے دائیں بائیں بٹھلا کر ایک ہی نظر سے تندرست کر دیتے تھے اور بعض جو مشق میں کمزو رتھے وہ ہاتھ لگا کر یا کپڑے کو چھو کر شفا بخشتے تھے۔ اس مشق میں عامل کچھ ایسا احساس کرتا ہے کہ گویا اس کے اندر سے بیمار پر اثر ڈالنے کے وقت ایک قرت نکلتی ہے اور بسا اوقات بیمار کو بھی یہ مشہود ہوتا ہے کہ اس کے اندر سے ایک زہر یا مادہ حرکت کر کے سفلی اعضاء کی طرف اُترتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بُکلّی … ہو جاتا ہے۔ اس علم میں اسلام میں بہت سی تالیفیں موجود ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ ہندوؤں میں بھی اس کی کتابیں ہونگی۔ حال میں جو انگریزوں نے فن مسمریزم نکالا ہے حقیقت میں وہ بھی اسی علم کی ایک شاخ ہے۔ انجیل پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کو بھی کسی قدر اس علم میں مشق تھی۔ مگر کامل نہیں تھی۔ اس وقت کے لوگ بہت سادہ اور اس علم سے بے خبر تھے۔ اسی وجہ سے اس زمانہ میں یہ عمل اپنی حد سے زیادہ قابل تعریف سمجھا گیا تھا۔ مگر پیچھے سے جوں جوں اس علم کی حقیقت کھلتی گئی لوگ اپنے علو اعتقاد سے تنزل کرتے گئے۔ یہاں تک کہ بعضوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ ایسی مشقوں سے بیماروں کو چنگا کرنا ٭ تازہ مردوں کا عمل توجہ سے چند منٹ یا چند گھنٹوں کیلئے زندہ ہو جانا قانون قدرت کے منافی نہیں جس حالت میں ہم بچشم خود دیکھتے ہیں کہ بعض جاندار کے مرنے کے بعد کسی دوا سے زندہ ہو جاتے ہیں تو پھر انسان کا زندہ ہونا کیا مشکل اور کیوں دور از قیاس ہے۔