پھر چوتھا معجزہ قرآن شریف کا اس کے روحانی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ اس میں محفوظ چلے آتے ہیں یعنی یہ کہ اس کی پیروی کرنے والے قبولیت الٰہی کے مراتب کو پہنچ ہیں اور مکالمات الٰہیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا اور انہیں محبت اور رحمت کی راہ سے جواب دیتا ہے اور بعض اسرار غیبیہ پر نبیوں کی طرح ان کو مطلع فرماتا ہے اور اپنی تائید اور نصرت کے نشانوں سے دوسرے مخلوقات سے انہیں ممتاز کرتا ہے۔ یہ بھی ایسا نشان ہے کہ جو قیامت تک اُمت محمدیہ میں قائم رہے گا اور ہمیشہ ظاہر ہوتا چلا آیا ہے اور اب بھی موجود اور محقق الوجود ہے مسلمانوں میں سے اب بھی ایسے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ جن کو اللہ جلشانہٗ اپنی تائیدات خاصہ سے موید فرما کر الہامات صحیحہ و صادقہ و مبشرات و مکاشفات یبہ سے سرفراز فرماتا ہے۔
اب اے حق کے طالبو اور سچے نشانوں کے بھوک اور پیاس انصاف سے دیکھو اور ذرا پاک نظر سے غور کرو کہ جن نشانوں کا خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے کس اعلیٰ درجہ کے نشان ہیں اور کیسے ہر زمانہ کیلئے مشہود محسوس کا حکم رکھتے ہیں۔ پہلے نبیوں کے معجزات کا اب نام و نشان باقی نہیں صرف قصی ہیں۔ خدا جانے ان کی اصلیت کہاں تک درست ہے۔ بالخصوص حضرت مسیح کے معجزات و انجیلوں میں لکھے ہیں باجود قصوں اور کہانیوں کے رنگ میں ہونے کے اور باوجود بہت سے مبالغات کے جو ان میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے شکوک و شبہات ان پر وارد ہوتے ہیں کہ جن سے انہیں بُکلّی صاف و پاک کر کے دکھلانا بہت مشکل ہے اور اگر ہم فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں کہ جو کچھ اناجیل مروجہ میں حضرت مسیح کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ لولے اور لنگڑے اور مفلوج اور اندھے وغیرہ بیمار ان کے چھونے سے اچھے ہو جاتے تھے۔ یہ تمام بیان بلامبالغہ ہے اور ظاہر پر ہی محمول ہے کوئی اور معنی اس کے نہیں۔ تب بھی حضرت مسیح کی ان باتوں سے کوئی بڑی خوبی ثابت نہیں ہوتی۔ اوّل تو انہیں دنوں میں ایک تالاب بھی ایسا تھا کہ اس میں ایک وقت خاص میں غوطہ مارنے سے ایسی سب مرضیں فی الفور