باوجود یہ کہ قرآن شریف کی ندا دنیا کے ہر ایک نواح میں ہو رہی ہے کہ بڑے زور سے ھل من معارض کا نقارہ بجایا جاتا ہے۔ مگر کبھی کسی طرف سے آواز نہیں آئی۔ پس اس سے اس بات کا صریح ثبوت ملتا ہے کہ تمام انسانی قوتیں قرآن شریف کے مقابلہ و معارضہ سے عاجز ہیں بلکہ اگر قرآن شریف کی صدہا خوبیوں میں سے صرف ایک خوبی کو پیش کر کے اس کی نظیر مانگی جائے تو انسان ضعیف البیان سے یہ بھی ناممکن ہے کہ اس کے ایک جزو کی نظیر پیش کر سکے۔ مثلاً قرآن شریف کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی خوبی ہے کہ وہ تمام معارف دینیہ پر مشتمل ہے اور کوئی دینی سچائی جو حق اور حکمت سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسی نہیں جو قرآن شریف میں پائی نہ جاتی ہو۔ مگر ایسا شخص کون ہے کہ کوئی دوسری کتاب ایسی دکھلائے جس میں یہ صفت موجود ہو اور اگر کسی کو اس بات میں شک ہو کہ قرآن شریف جامع تمام حقائق دینیہ ہے تو ایسا متشکک خواہ عیسائی ہو خواہ آریہ اور خواہ برہمو ہو خواہ دہریہ اپنی طرز اور طور پر امتحان کر کے اپنی تسلی کرا سکتا ہے درہم تسلی کر دینے کے ذمہ دار ہیں۔ بشرطیکہ کوئی طالب حق ہماری طرف رجوع کرے۔ بائبل میں جس قدر پاک صداقتیں ہیں یا حکماء کی کتابوں میں جس قدر حق و حکمت کی باتیںہیں جن پر ہماری نظر پڑی ہے یا ہندوؤں کے وید وغیرہ ہیں جو اتفاقاً بعض سچائیاں درج ہوگئی ہیں یا باقی رہ گئی ہیں جن کو ہم نے دیکھا ہے یا صوفیوں کی صدہاکتابوں میں جو حکمت و معرفت کے نکتے ہیں۔ جن پر ہمیں اطلاع ہوئی ہے اُن سب کو ہم قرآن شریف میں پاتے ہیں اور اس کامل استقراء سے جو چونتیس برس کے عرصہ میں نہایت عمیق اور محیط نظر کے ذریعہ سے ہم کو حاصل ہے نہایت قطع اور یقین سے ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ کوئی روحانی صداقت جو تکمیل نفس اور دماغی اور دلی قویٰ کی تربیت کے کئے اثر رکھتی ہے ایسی نہیں جو قرآن شریف میں درج نہ ہو اور یہ صرف ہمارا ہی تجربہ نہیں بلکہ یہی قرآن شریف کا دعویٰ بھی ہے جس کی آزمائش نہ فقط میںنے کی بلکہ ہزار ہا علماء ابتداء سے کرتے آئے اور اس کی سچائی کی گواہی دیتے چلے آئے ہیں۔