پیروی قرآن شریف و اثر صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہور میں آئیں۔ جب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ مشرف باسلام ہونے سے پہلے کیسے اور کس طریق اور عادت کے آدمی تھے اور پھر بعد شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و اتباع قرآن شریف کس رنگ میں آ گئے اور کیسے اخلاق میں عقاید میں چلن میں گفتار میں رفتار میں کردار میں اور اپنی جمیع عادات میں خبیث حالت سے منتقل ہو کر نہایت طیب اور پاک حالت میں داخل کئے گئے تو ہمیں اس تاثیر عظیم کو دیکھ کر جس نے ان کے زنگ خوردہ وجودوں کو ایک عجیب تازگی اور دشمنی اور چمک بخش دی تھی۔ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ تصرف ایک خارق عادت تصرف تھا جو خاص خدا تعالیٰ کے ہاتھ نے کیا۔ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ان کو مردہ پایا اور زندہ کیا اور جہنم کے گڑھے میں گرتے دیکھا تو حولناک حالت سے چھڑایا۔ بیمار پایا اور اُسے اچھا کیا۔اندھیرے میں پایا انہیں روشنی بخشی اور خدا تعالیٰ نے اس اعجاز کے دکھلانے کے لئے قرآن شریف میں ایک طرف عرب کے لوگوں کی وہ خراب حالتیں لکھیں ہیں جو اسلام سے پہلے وہ رکھتے تھے اور دوسری طرف ان لوگوں کے وہ پاک حالات بیان فرمائے ہیں جو اسلام لانے کے بعد ان میں پیدا ہوگئے تھے کہ تا جو شخص ان پہلے حالات کو دیکھے جو کفر کے زمانہ میں تھے اور مقابل اس کے وہ حالت پڑھے جو اسلام لانے کے بعد ظہور پذیر ہوگئی تو ان دونوں طور کے سوانح پر مطلع ہونے سے بہ یقین کامل سمجھ لیوے گا کہ یہ تبدیلی ایک خارق عادت تبدیلی ہے جسے معجزہ کہنا چاہئے۔
پھر تیسرا معجزہ قرآن شریف کا جو ہماری نظروںکے سامنے موجود ہے اس کے حقائق و معارف و نکات لطائف ہیں جو اس کی بلیغ و فصیح عبارات میں بھرے ہوئے ہیں۔ اس معجزہ کو قرآن شریف میں بڑی شدومد سے بیان کیا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ تمام جن و انس اکٹھے ہو کر اس کی نظیر بنانا چاہیں تو اُن کے لئے ممکن نہیں یہ معجزہ اس دلیل سے ثابت اور متحقق الوجود ہے کہ اس زمانہ تک کہ تیرہ سَو برس سے زیادہ گزر رہا ہے