کے نشانوں کے بارے میں جابجا قرآن شریف میں وعدے دیئے گئے ہیں کہ وہ ضرور کسی دن دکھلائے جائیں گے اور یہ بھی ہم نے تسلیم کیا کہ وہ سب وعدے اس زمانہ میںپورے بھی ہوگئے کہ جب کہ خدا تعالیٰ نے اپنی خداوندی قدرت دکھلا کر مسلمانوں کی کمزوری اور ناتوانی کو دور کر دیا اور معدودے چند سے ہزار ہا تک ان کی نوبت پہنچا دی اور ان کے ذریعہ سے ان تمام کفّار کو تہ تیغ کیا جو مکہ میں اپنی سرکشی اور جو رو جفا کے زمانہ میں نہایت تکبر سے عذاب کا نشان مانگا کرتے تھے لیکن اس بات کا ثبوت قرآن شریف سے کہاں ملتا ہے کہ بجز اُن نشانوں کے اور بھی نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے تھے سو واضح ہو کہ نشانوں کے دکھلانے کا ذکر قرآن شریف میں جا بجا آیا ہے۔ بعض جگہ اپنے پہلے نشانوں کا حوالہ بھی دیا ہے دیکھو آیت کمالم یومنوا بہ اوّل مرۃ الجزو نمبر۷ سورۃ انعام۔ بعض جگہ کفّار کی ناانصافی کا ذکر کر کے ان کا اس طور کا اقرار درج کیا ہے کہ وہ نشانوں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ وہ جادو ہے۔ دیکھو آیت وان یروا ایۃً یعرضوا ویقولو سحر مستمرہ (الجزو نمبر۲۷ سورۃ القمر) بعض جگہ جو نشان کے دیکھنے کا صاف اقرار منکرین نے کر دیا ہے وہ شہادتیں ان کی پیش کی ہیں۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔
وشھدوا ان الرسول حق وجاء ھم البینٰت یعنی انہوں نے رسول کے حق ہونے پر گواہی دی اور کھلے کھلے نشان ان کو پہنچ گئے اور بعض جگہ بعض معجزات کو بتصریح بیان کر دیا ہے جیسے معجزہ شق القمر جو ایک عظیم الشان معجزہ اور خدائی قدرت کا ایک کامل نمونہ ہے جس کی تصریح ہم نے کتاب سرمہ چشم آریہ میں بخوبی کر دی ہے جو شخص مفصل دیکھنا چاہے اس میں دیکھ سکتا ہے۔ اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خود تراشیدہ نشان مانگا کرتے تھے اکثر وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانوں کے آخر کار گواہ بھی بن گئے تھے کیونکہ آخر وہی لوگ تو تھے جنہوں نے مشرف باسلام ہو کر دین اسلام کو مشارق و مغارب میں پھیلایا اور نیز معجزات اور پیشگوئیوں کے بارے میں کتب حدیث میں اپنی رویت کی شہادتیں قلمبند کرائیں۔ پس اس زمانہ میں ایک عجیب طرز ہے کہ ان بزرگان دین کے اس زمانہ جاہلیت