کے انکاروں کو بار بار پیش کرتے ہیں جن سے بالآخر خود وہ دست کش اور تائب ہوگئے تھے لیکن اُن کی اُن شہادتوں کو نہیں مانتے جو راہ راست پر آنے کے بعد انہوں نے پیش کی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تو چاروں طرف سے چمک رہے ہیں وہ کیونکر چھپ سکتے ہیں صرف معجزات جو صحابہ کی شہادتوں سے ثابت ہیں وہ تین ہزار معجزہ ہے اور پیش گوئیاں تو شاید دس ہزار سے بھی زیادہ ہوں گی جو اپنے وقتوں پر پوری ہوگئیں اور ہوتی جاتی ہیں۔ ماسوائے اس کے بعض معجزات و پیشگوئیاں قرآن شریف کی ایسی ہیں کہ وہ ہمارے لئے جو اس زمانہ میں ہیں مشہود و محسوس کا حکم رکھتی ہیں اور کوئی ان سے انکار نہیں کر سکتا چنانچہ وہ یہ ہیں۔
(۱) عذابی نشان کا معجزہ جو اس وقت کے کفّار کو دکھلایا گیا تھا یہ ہمارے لئے بھی فی الحقیقت ایسا ہی نشان ہے جس کو چشمدید کہنا چاہئے وجہ کہ یہ نہایت یقینی مقدمات کا ایک ضروری نتیجہ ہے جس سے کوئی موافق اور مخالف کسی صورت سے انکار نہیں کر سکتا اور یہ مقدمہ جو بطور بنیاد معجزہ کے ہے نہایت بدیہی اور مسلم الثبوۃ ہے کہ یہ عذابی نشان اس وقت مانگا گیا تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور چند رفیق آنجناب کہ مکہ میں دعوت حق کی سے خود صدہا تکالیف اور دوروں اور دکھوں میں مبتلا تھے اور وہ ایام دین اسلام کے لئے ایسے ضعف اور کمزوری کے دن تھے کہ خود کفار مکہ ہنسی اور ٹھٹھہ کی راہ سے مسلمانوں کو کہا کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو اس قدر عذاب اور مصیبت اور دکھ اور درد ہمارے ہاتھ سے کیوں تمہیں پہنچ رہا ہے اور وہ خدا جس پر تم بھروسہ کرتے ہو وہ کیوں تمہاری مدد نہیں کرتا اور کیوں تم کوایک قدر قلیل جماعت جو عنقریب نابود ہونے والی ہے اور اگر تم سچے ہو تو کیوں ہم پر عذاب نازل نہیں ہوتا ان سوالات کے جواب میں جو کچھ کفّار کو قرآن شریف کے متفرق مقامات میں ایسے زنانہ تنگی و تکالیف میں کہا گیا وہ دوسرا مقدمہ اس پیشگوئی کی عظمت شان سمجھنے کیلئے ہے کیونکہ وہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہؓ پر ایسا نازک زمانہ تھا کہ ہر وقت اپنی جان کا اندیشہ تھا اور چاروں طرف ناکامی منہ دکھلا رہی تھی