ردّ کردہ نشانات کا ذکر ہے جو تخویف کے نشانوں میں سے تھے اور یہی تیسرے معنی ہیں جو صحیح اور درست ہیں۔
پھر اس جگہ ایک اور بات منصفین کے سوچنے کے لائق ہے جس سے اُن پر ظاہر ہوگا کہ آیت وما منعنا ان ترسل بالایت الخ سے ثبوت معجزات ہی پایا جاتا ہے نہ نفی معجزات کیونکہ الایت کے لفظ پر جو الف لام واقعہ ہے وہ بموجب قواعد نحو کے دو صورتوں سے خالی نہیں یا کل کے معنی دے گا یا خاص کے۔ اگر کل کے معنی دے گا تو یہ معنی کئے جائیں گے کہ ہمیں کل معجزات کے بھیجنے سے کوئی امر مانع نہیں ہوا مگر اگلوں کا ان کو جھٹلانا اور اگر خاص نشانیوں کے بھیجنے سے (جنہیں منکر طلب کرتے ہیں) کوئی امر مانع نہیں ہوا مگر یہ کہ ان نشانیوں کو اگلوں نے جھٹلایا بہرحال ان دونوں صورتوں میں نشانوں کا آنا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ معنی ہوں کہ ہم نے ساری نشانیاں بوجہ تکذیب امم گذشتہ نہیں بھیجیں تو اس سے بعض نشانوں کا بھیجنا ثابت ہوتا ہے جیسے مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں نے اپنا سارا مال زید کو نہیں دیا تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس نے کچھ حصہ اپنے مال کا زید کو ضرور دیا ہے اور اگر یہ معنی لیں کہ بعض خاص نشان ہم نے نہیں بھیجے تو بھی بعض دیگر کا بھیجنا ثابت ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ بعض خاص چیزیں میں نے زید کو نہیں دیں تو اس سے صاف پایا جائے گا کہ بعض دیگر ضروری ہیں بہرحال جو شخص اوّل اس آیت کے سیاق و سباق کی آیتوں کو دیکھے کہ کیسی وہ دونوں طرف کے عذاب کے نشانوں کا قصہ بتلا رہی ہیں اور پھر ایک دوسری نظر اُٹھاوے اور خیال کرے کہ کیا یہ معنی صحیح اور قرین قیاس ہیں کہ خدا تعالیٰ کے تمام نشانوں اور عجائب کاموں کی جو اس کی بے انتہا قدرت سے وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے اور غیر محدود ہیں پہلے لوگ اپنے محدود زمانہ میں تکذیب کرچکے ہوں اور پھر ایک تیسری نظر منصفانہ سے کام لے کر سوچے کہ کیا اس جگہ تخویف کے نشانوں کا ایک خاص بیان ہے یا تبشیر اور رحمت کے نشانوں کا بھی کچھ ذکر ہے اور پھر ذرا چوتھی نگاہ الایات کے الف لام پر بھی ڈال دیوے کہ وہ کن معنوں کا افادہ کر رہا ہے تو اس چار طور کی نظر