تخویف کے نشانوں کا آیات موصوفہ بالا میں ذکر ہے تو یہ دوسرا مرتنقیح طلب باقی رہا کہ کیا اس آیت کے (جو مامنعنا الخ ہے) یہ معنی سمجھنے چاہئیں کہ تخویف کا کوئی نشان خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ظاہر نہیں کیا یا یہ سمجھنے چاہئیں کہ تخویف کے نشانوں میں سے وہ نشان ظاہر نہیں کئے گئے جو پہلی اُمتوں کو دکھلائے گئے تھے اور یا یہ تیسرے معنی قابل اعتبار ہیں کہ دونوں قسم کے تخویف کے نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ظاہر ہوتے رہیں۔ بجز ان خاص قسم کے بعض نشانوں کے جن کو پہلی اُمتوں نے دیکھ کر جھٹلا دیا تھا اور ان کو معجزہ نہیں سمجھا تھا۔
سو واضح ہو کہ آیات متنازعہ فیہا پر نظر ڈالنے سے بتمام تر صفائی کھل جاتا ہے کہ پہلے اور دوسرے معنی کسی طرح درست نہیں کیونکہ آیت ممدوحہ بالا کے یہ معنی لینا کہ تمام انواع و اقسان کے وہ تخویفی نشان جو ہم بھیج سکتے ہیں اور تمام وہ وراء الوراء تعذیبی نشان جن کے بھیجنے پر غیر محدود طور پر ہم قادر ہیں اس لئے ہم نے نہیں بھیجے کہ پہلی اُمتیں اس کی تکذیب کر چکی ہیں یہ معنی سراسر باطل ہیں کیونکہ ظاہر ہے کہ پہلی اُمتوں نے انہیں نشانوں کی تکذیب کی جو انہوں نے دیکھے تھے وجہ یہ کہ تکذیب کیلئے یہ ضرور ہے کہ جس چیز کی تکذیب کی جائے۔ اوّل اس کا مشاہدہ بھی ہو جائے جس نشان کو ابھی دیکھا ہی نہیں اس کی تکذیب کیسی۔ حالانکہ نادیدہ نشانوں میں سے ایسے اعلیٰ درجہ کے نشان بھی تخت قدرت باری تعالیٰ ہیں جن کی کوئی انسان تکذیب نہ کر سکے اور سب گردنیں ان کی طرف جھک جائیں کیونکہ خدا تعالیٰ ہر ایک رنگ کا نشان دکھلانے پر قادر ہے اور پھر چونکہ نشان ہائے قدرت باری تعالیٰ غیر محدود اور غیر متناہی ہیں تو پھر یہ کہنا کیونکر درست ہو سکتا ہے کہ محدود زمانہ میں وہ سب دیکھے بھی گئے اور ان کی تکذیب بھی ہوگئی۔ وقت محدود میں تو وہی چیز دیکھی جائے گی جو محدود ہوگی۔ بہرحال اس آیت کے یہی معنی صحیح ہوں گے کہ جو بعض نشانات پہلے کفّار دیکھ چکے تھے اور ان کی تکذیب کر چکے تھے۔ ان کا دوبارہ بھیجنا عیب سمجھا گیا جیسا کہ قرینہ بھی انہیں معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی اس موقعہ پر جو ناقہ ثمود کا خدا تعالیٰ نے ذکر کیا ہے وہ ذکر ایک بھاری قرینہ اس بات پر ہے کہ اس جگہ گذشتہ اور