کا بہت کچھ ذکر ہے۔ یہاں تک کہ اس نے اُن نشانوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ ایک دائمی وعدہ دے دیا ہے کہ قرآن شریف کے سچے متبع ہمیشہ ان نشانوں کو پاتے رہیں گے جیسا کہ وہ فرماتا ہے لھم البشریٰ فی الحیوۃ الدنیا و فی الاخرۃ لاتبدیل لکمت اللہ ذٰلک ھو الفوز العظیم۔ یعنی ایماندار لوگ دنیوی زندگی اور آخرت میں بھی تبشیر کے پاتے رہیں گے۔ جن کے ذریعے سے وہ دنیا اور آخرت میں معرفت اور محبت کے میدانوں میں ناپیداکنار ترقیاں کرتے جائیں گے یہ خدا کی باتیں ہیں جو کبھی نہیں ٹلیں گی اور تبشیر کے نشانوں کو پا لینا یہی فوز عظیم ہے (یعنی یہی ایک امر ہے جو محبت اور معرفت کے منتہیٰ مقام تک پہنچا دیتا ہے)۔ اب جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں جو معترض نے بصورت اعتراض پیش کی ہے صرف تخویف کے نشانوں کا ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ آیت وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلاَّ تَخْوِیْفًاسے ظاہر ہو رہا ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کے کل نشانوں کو قہری نشانوں میں ہی محصور سمجھ کر اس آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ ہم تمام نشانوں کو محض تخویف ہی کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں اور کوئی دوسری غرض نہیں ہوتی۔ تو یہ معنی بہ بداہت باطل ہیں جیسا کہ ابھی بیان ہوچکا ہے کہ نشان دو غرضوں سے بھیجے جاتے ہیں یا تخویف کی غرض سے یا تبشیر کی غرض سے انہیں دو قسموں کو قرآن شریف اور بائبل بھی جا بجا ظاہر کر رہی ہے۔ پس جب کہ نشان دو قسم کے ہوئے تو آیت ممدوح بالا میں جو لفظ آیات ہے (جس کے معنی وہ نشانات) بہرحال اسی تاویل پر بصحت منطبق ہوگا کہ نشانوں سے قہری نشان مراد ہیں کیونکہ اگر یہ معنی نہ لئے جائیں تو پھر اس سے یہ لازم آتا ہے کہ تمام نشانات جو تحت قدرت الٰہی داخل ہیں۔ تخویف کے قسم میں ہی محصور ہیں حالانکہ فقط تخویف کی قسم میں ہی سارے نشانوں کا حصر سمجھنا سراسر خلاف واقعہ ہے کہ جو نہ کتاب اللہ کی رو سے اور نہ عقل کی رو سے اور نہ کسی پاک دل کے کانشنس کی رو سے درست ہو سکتا ہے۔ اب چونکہ اس بات کا صاف فیصلہ ہو گیا کہ نشانوں کے دو قسموں میں سے صرف