و ہراساں نہ ہوئے۔ اس جگہ واضح ہو کہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ (۱) نشان تخویف تعذیب جن کو قہری نشان بھی کہہ سکتے ہیں۔ (۲) نشان تبشیر و تسکین جن کو نشان رحمت سے بھی موسوم کرسکتے ہیں۔ تخویف کے نشان سخت کافروں اور کج دلوں اورنافرمانوں اور بے ایمانوں اور فرعونی طبیعت والوں کیلئے ظاہر کئے جاتے ہیں تا وہ ڈریں اور خدا تعالیٰ کی قہری اور جلالی ہیبت ان کے دلوں پر طاری ہو اور تبشیر کے نشان اُن حق کے طالبوں اور مخلص مومنوں اور سچائی کے متلاشیوں کیلئے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو دل کی غربت اور فروتنی سے کامل یقین اور زیادت ایمان کے طلبگار اور تبشیر کے نشانوں سے ڈرانا اور دھمکانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اپنے اُن مطیع بندوں کو مطمئن کرنا اور ایمانی اور یقینی حالات میں ترقی دینا اور ان کے مضطرب سینہ پر دست شفقت و تسلی رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ سو مومن قرآن شریف کے وسیلہ سے ہمیشہ تبشیر کے نشان پاتا رہتا ہے اور ایمان اور یقین میں ترقی کرتا جاتا ہے۔ تبشیر کے نشانوں سے مومن کو تسلی ملتی ہے اور وہ اضطراب جو فطرتًا انسان میں ہے جاتا رہتا ہے اور سکینت دل پر نازل ہوتی ہے۔ مومن ببرکت اتباع کتاب اللہ اپنی عمر کے آخری دن تک تبشیر کے نشانوں کو پاتا رہتا ہے اور تسکین اور آرام بخشنے والے نشان اس پر نازل ہوتے رہتے ہیں تا وہ یقین اور معرفت میں بے نہایت ترقیاں کرتا جائے اور حق الیقین تک پہنچ جائے اور تبشیر کے نشانوں میں ایک لطف یہ ہوتا ہے کہ جیسے مومن کے ان نزول سے یقین اور معرفت اور قوت ایمان میں ترقی کرتا ہے ایسا ہی وہ بوجہ مشاہدہ الاء و نعماء الٰہی و احسانات ظاہرہ و باطنہ و جلیہ و خفیہ حضرت باری عزاسمہٗ جو تبشیر کے نشانوں میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ محبت وعشق میں بھی دن بدن بڑھتا جاتا ہے سو حقیقت میں عظیم الشان اور قوی الاثر اور مبارک اور موصل الی المقصود تبشیر کے نشان ہی ہوتے ہیں جو سالک کو معرفت کاملہ اور محبت ذاتیہ کی اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں جو اولیاء اللہ کے لئے منتہیٰ المقامات ہے اور قرآن شریف میں تبشیر کے نشانوں