اور اس لا نافیہ سے بڑھ کر اور کونسا لانافیہ ہوگا۔ پھر دوسری آیت کا ترجمہ پیش کیا گیاہے اس میں بھی سیاق و سباق کی آیتوں سے بالکل الگ کر کے اس اعتراض را ردّ کر دیا ہے مگر اصل آیت اور اس کے متعلقات پر نظر ڈالنے سے ہر ایک منصف بصیر سمجھ سکتا ہے کہ آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں ہے کہ جو انکار معجزات پر دلالت کرتا ہے بلکہ تمام الفاظ صاف بتلا رہے ہیں کہ ضرور معجزات ظہور میں آئے چنانچہ وہ آیت سعہ اس کے دیگر آیات متعلقہ کے یہ ہے۔ وَاِنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اِلاَّ نَحْنُ مُھْلِلُوْھَا قَبْلَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ او مُعَذِّبُوْھَا عَذَابًا شَدِیْدًا کَانَ ذٰلِکَ فِیْ الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًاo وَمَا مَنَعَنَا اَنْ نُرْسِلَ بِا لْاٰیٰتِ اِلاَّ اَنْ کَذَّبَبِھَا الْاَوَّلُوْنَo وَایَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃ فَظَلمُوْابِھَا وَمَا نُرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلاَّ تَخْوِیْفًاo فرماتا ہے عزوجل کہ یوں قیامت سے پہلے ہر ایک بستی کو ہم نے ابھی ہلاک کرنا ہے یا عذاب شدید نازل کرنا ہے یہی کتاب میں مندرج ہوچکا ہے۔ مگر اس وقت ہم بعض ان گذشتہ قہری نشانوں کے (جو عذاب کی صورت میں پہلی اُمتوں پر نازل ہو چکے ہیں) اس سے نہیں بھیجتے جو پہلے اُمت کے لوگ اس کی تکذیب کر چکے ہیں۔ چنانچہ ہم نے ثمود کو بطور نشان کے جو مقدمہ عذاب کا تھا ناقہ دیا جو حق نما نشان تھا۔ جس پر انہوں نے ظلم کیا۔ یعنی وہی ناقہ جس کی بسیار خوری اور بسیار نوشی کی وجہ سے شہر حجر کے باشندوں کے لئے جو قوم ثمود میں تھے۔ پانی تالاب کے لئے کوئی چراگاہ رہتی تھی اور ایک سخت تکلیف اور رنج اور بلا میں گرفتار ہوگئی تھی اور قہری نشانوں کے نازل کرنے اور اس لا نافیہ سے ہماری غرض یہی ہوتی ہے کہ لوگ اُن سے ڈریں۔ یعنی قہری نشان تو صرف تخویف کیلئے دکھلائے جاتے ہیں۔ پس ایسے قہری نشانوں کے طلب کرنے سے کیا فائدہ جو پہلی اُمتوں نے دیکھ کر انہیں جھٹلا دیا اور اُن کے دیکھنے سے کچھ بھی تخویف (بقیہ حاشیہ ) نہیں رہتا۔ اسی وجہ سے سارے نبی ایمان بالغیب کی رعایت سے معجزے دکھلاتے رہے ہیں کبھی کسی نبی نے ایسا نہیں کیا کہ ایک شہر کا شہر زندہ کر کے ان سے اپنی نبوت کی گواہی دلاوے یا آسمان تک نرد بان رکھ کر اور سب کے روبرو چڑھ کر تمام دنیا کو تماشا دکھلاوے۔