زیادہ کھیتی ہے یا ایسا لا نافیہ عربوں کے کبھی خواب میں بھی نہیں آیا ہوگا۔ ان کے دل تو اسلام کی حقیقت سے بھرے ہوئے تھے۔ تبھی تو سب کے سب بجز معدودے چند کہ جو اس عذاب کو پہنچ گئے تھے
--------------------------------
(بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ ) لیں اور پڑھیں بھی اپنے ہاتھ میں لے کر۔ یا تو ایسا کر کہ مکہ کی زمین میں جو ہمیشہ پانی کی تکلیف رہتی ہے۔ شام اور عراق کے ملک کی طرح نہریں جاری ہو جاویں اور جس قدر ابتداء دنیا سے آج تک ہمارے بزرگ مر چکے ہیں سب زندہ ہو کر آ جائیں اور اس میں قصی بن کلاب بھی ہو کیونکہ وہ بڈھا ہمیشہ سچ بولتا تھا۔ اس سے ہم پوچھیں گے کہ تیرا دعویٰ حق ہے یا باطل۔ یہ سخت سخت خود تراشیدہ نشان تھے جو وہ مانگتے تھے اور پھر بھی نہ صاف طور پر بلکہ شرط پر شرط لگانے سے جس کا ذکر جا بجا قرآن شریف میں آیا ہے۔ پس سوچنے والے کے لئے عرب کے شریروں کی ایسی درخواستیں ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ظاہرہ و آیات بینہ و رسولانہ ہئیت پر صاف صاف اور کھلی کھلی دلیل ہے خدا جانے ان دل کے اندھوں کو ہمارے مولیٰ و آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار صداقت نے کس درجہ تک عاجز و تنگ کر رکھا تھا اور کیا کچھ آسمانی تائیدات و برکات کی بارشیں ہو رہی تھیں کہ جن سے خیرہ ہو کر اور جن کی ہیبت سے منہ پھیر کر سراسرٹالنے اور بھاگنے کی غرض سے ایسی دور از صواب درخواستیں پیش کرتے تھے ظاہر ہے کہ اس قسم کے معجزات کا دکھلانا ایمان بالغیب کی حد سے باہر ہے یوں تو اللہ جلشانہٗ قادر ہے کہ زمین سے آسمان تک زیۃ رکھ دیوے۔ جس کو سب لوگ دیکھ لیویں اور وہ چار ہزار کیا دو کروڑ آدمیوں کو زندہ کر کے ان کے منہ سے اُن کی اولاد کے سامنے صدق نبوت کی گواہی دلا دیوے۔ یہ سب کچھ وہ کر سکتا ہے مگر ذرا سوچ کر دیکھو کہ اس انکشاف تام سے ایمان بالغیب جو مدار ثواب اور اجر ہے دور ہو جاتا ہے اور دنیا نمونہ محشر ہو جاتی ہے۔ پس جس طرح قیامت کے میدان میں جو انکشاف تام کا وقت ہوگا۔ ایمان کام نہیں آتا اِسی طرح ان انکشاف تام سے بھی ایمان لانا کچھ مفید نہیں بلکہ ایمان اسی حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ جب کچھ خفا بھی باقی ہے جب سارے پردے کھل گئے تو پھر ایمان ایمان