عام طور پر نشانوں سے صاف منکر ہو جاتے اور ان کا معجزات میں ایسا لا نافیہ استعمال کرتے جو اُن کی حد حوصلہ سے باہر اور ان کی حد حوصلہ سے باہر اور ان کی مستمرائے سے بعید تھا بلکہ قرائن سے آفتاب کی طرح ظاہر ہے کہ جس جگہ پر قرآن شریف میں کفّار کی طرف سے یہ اعتراض لکھا گیا ہے کہ کیوں اس پیغمبر پر کوئی نشانی نہیں اُترتی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ اُن کا مطلب یہ ہے کہ جو نشانیاں ہم مانگتے ہیں۔ اُن میں سے کوئی نشانی کیوں نہیں اُترتی۔ اب٭ قصہ کوتاہ یہ کہ آپ نے آیت متذکرہ بالا کے لا نافیہ کو قرائن کی حد سے ------------------------------ ٭ واضح ہو کہ قرآن شریف میں نشان مانگنے کے سوالات کفّار کی طرف سے ایک دو جگہ نہیں بلکہ کئی مقامات میں یہی سوال کیا گیا ہے اور اب سب مقامات کو بنظر یکجائی دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ کفّار مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین قسم کے نشانات مانگا کرتے تھے۔ (۱) وہ نشان جو عذاب کی صورت میں فقط اپنے افتراح سے کفّار مکہ نے طلب کئے تھے۔ (۲) دوسرے وہ نشان جو عذاب کی صورت میں یا مقدمہ عذاب کی صورت میں پہلی اُمتوں پر وارد کئے گئے تھے۔ (۳) تیسرے وہ نشان جس سے پردہ غیبی بُکلّی اُٹھ جائے جس کا اُٹھ جانا ایمان بالغیب کے بُکلّی برخلاف ہے۔ سو عذاب کے نشان ظاہر ہونے کے لئے جو سوال کئے گئے ہیں ان کا جواب تو قرآن شریف میں بھی دیا گیا ہے کہ تم منتظر رہو عذاب نازل ہوگا۔ ہاں ایسی صورت کا عذاب نازل کرنے سے انکار کیا گیا ہے جس کی پہلے تکذیب ہوچکی ہے تا ہم عذاب نازل ہونے کا وعدہ دیا گیا ہے جو آخر غزوات کے ذریعہ سے پورا ہو گیا لیکن تیسری قسم کا نشان دکھلانے سے بُکلّی انکار کیا گیا ہے اور خود ظاہر ہے کہ ایسے سوال کا جواب انکار ہی نہ تھا نہ اور کچھ۔ کیونکہ کفّار کہتے تھے کہ تب ہم ایمان لاویں گے کہ جب ہم ایسا نشان دیکھیں کہ زمین سے آسمان تک نرد بان رکھی جائے اور تو ہمارے دیکھتے دیکھتے اس نرد بان کے ذریعہ سے زمین سے آسمان پر چڑھ جائے اور فقط تیرا آسمان پر چڑھنا ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے جب تک آسمان سے ایک کتاب نہ لادے جس کو ہم پڑھ