عنایت کی اور خود اس کے دلی انصاف کو ہدایت قبول کرنے کے لئے مستعد پیدا کیا اور داعی شر بدی کی طرف رغبت دینے والا ہے تا انسان اُس کی رغبت دہی سے احتراز کر کے اُس ثواب کو حاصل کرے جو بجز اس قسم کے امتحان کے حاصل نہیں کر سکتا تھا اور ثبوت اس بات کا کہ ایسے دو داعی یعنی داعی خیر و داعی شر انسان کے لئے پائے جاتے ہیں۔ بہت صاف اور روشن ہے کیونکہ خود انسان بدیہی طور پر اپنے نفس میں احساس کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ دو قسم کے جذبات سے متاثر ہوتا رہتا ہے کبھی اُس کے لئے ایسی حالت صاف اور نورانی میسر آ جاتی ہے کہ نیک خیالات اور نیک ارادے اس کے دل میں اُٹھتے ہیں اور کبھی اُس کی حالت ایسی پُرظلمت اور مکدر ہوتی ہے کہ طبیعت اس کی بدخیالات کی طرف رجوع کرتی ہے اور بدی کی طرف اپنے دل میں رغبت پاتا ہے۔ سو یہی دونو داعی ہیں جن کو ملائک اور شیاطین سے تعبیر کیا جاتا ہے اور حکمائے فلسفہ نے انہیں دونوں داعی خیر اور داعی شر کو دوسری طور پر بیان کیا ہے۔ یعنی اُس کے گمان میں خود انسان ہی کے وجود میں دو قسم کی قوتیں ہیں۔ ایک قوت ملکی جو داعی خیر ہے۔
دوسری قوت شیطانی جو داعی شر ہے۔ قوت ملکی نیکی کی طرف رغبت دیتی ہے اور چپکے سے انسان کے دل میں خود بخود یہ پڑ جاتا ہے کہ میں نیک کام کروں۔ جس سے میرا خدا راضی ہو اور قوت شیطانی بدی کی طرف محرک ہوتی ہے۔ غرض اسلامی عقائد اور دنیا کے کل فلاسفہ کے اعتقاد میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ اہل اسلام دونوں محرکوں کو خارجی طور پر دو وجود قرار دیتے ہیں اور فلسفی لوگ انہیں دونوں وجودوں کو دو قسم کی قوتیں سمجھتے ہیں جو خود انسان ہی کے نفس میں موجود ہیں لیکن اس اصل بات میں کہ فی الحقیقت انسان کے لئے دو محرک پائے جاتے ہیں خواہ وہ محرک خارجی طور پر کوئی وجود رکھتے ہوں یا قوتوں کے نام سے اُن کو موسوم کیا جاوے یہ ایسا اجماعی اعتقاد ہے جو تمام گروہ فلاسفہ اس پراتفاق رکھتے ہیں اور آج تک کسی عقلمند نے اس اجماعی اعتقاد سے انحراف اور انکار نہیں کیا وجہ یہ کہ یہ بدیہی صداقتوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کی بدیہی صداقت ہے جو اس شخص پر بہ کمال کھل سکتی ہے کہ جو اپنے نفس پر ایک منٹ کے