ہے۔ بجائے چوبیس سَو روپیہ کے دس ہزار روپیہ۔ (۳۰ ؍ مئی ۱۸۸۵ء) اکبر آباد آریہ سماج کے ایک ممبر رام چرن نامی کے نام (ایک سوال کا جواب جو بذریعہ اخبار عام مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۸۸۵ء میں دیا گیا۔ ایڈیٹر) آج ایک سوال از طرف رام چرن نامی جو آریہ سماج اکبر آباد کے ممبروں میں سے ہے میری نظر سے گزرا سو اگر چہ لغو اور بے حقیقت سوالات کی طرف متوجہ ہونا ناحق اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے لیکن ایک دوست کے الحاح اور اصرار سے لکھتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ خدا نے شیطان کو پیدا کر کے کیوں آپ ہی لوگوں کو گناہ اور گمراہی میں ڈالا گیا اُس کا یہ ارادہ تھا کہ لوگ ہمیشہ بدی میں مبتلا رہ کر کبھی نجات نہ پاویں۔ ایسا سوال اُن لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے جنہوں نے کبھی غور اور فکر سے دینی معارف میں نظر نہیں کی یا جن کی نگاہیں خود ایسی پست ہیں کہ بجز نکتہ چینیوں کی اور کوئی حقیقت شناسی کی بات اور محققانہ صداقت ان کو نہیں سوجھتی۔ اب واضح ہو کہ سائل کے اس سوال سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصول اسلام سے بکلی بیگانہ اور معارف ربانی سے سراسر اجنبی ہے کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ شریعت اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ گویا شیطان صرف لوگوں کو بہانے اور ورغلانے کے لئے خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اسی اپنے وسوسہ کو پختہ سمجھ کر تعلیم قرآنی پر اعتراض کرتا ہے حالانکہ تعلیم قرآنی کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے اور نہ یہ بات کسی آیت کلام الٰہی سے نکلتی ہے بلکہ عقیدہ حقہ اہل اسلام جس کو حضرت خداوند کریم جلشانہٗ نے خود اپنے کلام پاک میں بیان کیا ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے دونوں اسباب نیکی اور بدی کی مہیا کر کے اور ایک وجہ کا اُس کو اختیار دے کر قدرتی طور پر ہر دو قسم کے محرک اس کے لئے مقرر کئے ہیں ایک داعی خیر یعنی ملائکہ جو نیکی کی رغبت دل میں ڈالتی ہیں۔ دوسری داعی شر یعنی شیطان جو بدی کی رغبت دل میں ڈالتا ہے لیکن خدا نے داعی خیر کو غلبہ دیا ہے کہ اُس کی تائید میں عقل عطا کی اور اپنا کلام نازل کیا اور خوارق اور نشان ظاہر کئے اور ارتکاب جرائم پر سخت سخت سزائیں مقرر کیں۔ سو خدا تعالیٰ نے انسان کو ہدایت پانے کے لئے کئی قسم کی روشنی