لئے توجہ اور غور کرے اور دیکھے کہ کیونکر نفس اس کا مختلف جذبات میں مبتلا ہوتا رہتا ہے اور کیونکر ایک دم میں کبھی زاہدانہ خیالات اس کے دل میں بھر جاتے ہیں اور کبھی رندانہ وساوس اس کو پکڑ لیتے ہیں سو یہ ایک ایسی روشنی اور کھلی کھلی صداقت ہے جو ذوالعقول اس سے منکر نہیں ہو سکتی ہاں جو لوگ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور کبھی انہوں نے اپنے نفس کے حالات کی طرف توجہ نہیں کی ان کے دلوں میں اگر ایسے ایسے پوچ وساوس اُٹھیں تو کچھ بعید نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ بباعث نہایت درجہ کی غفلت اور کور باطنی کے قانون قدرت الٰہی سے بکلی بے خبر اور انسانی خواص اور کیفیات سے سراسر ناواقف ہیں اور اُن کے اس جہل مرکب کا بھی یہی علاج ہے کہ وہ ہمارے اس بیان کو غور سے پڑھیں تا کہ اُن کو کچھ ندامت حاصل ہو کہ کس قدر تعصب نے اُن کو مجبور کر رکھا ہے کہ باوجود انسان کہلانے کے جو انسانیت کی عقل ہے اس سے بالکل خالی اور تہی دست ہیں اور ایسی اعلیٰ درجہ کی صداقتوں سے انکار کر رہے ہیں جن کو ایک دس برس کا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے پھر بھی سائل اپنے سوال کے اخیر میں یہ شُبہ پیش کرتا ہے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو تسلی دی تھی کہ شیطان تجھ کو بہکا نہیں سکے گا لیکن اُسی قرآن میں لکھا ہے کہ شیطان نے آدم کو بہکایا یہ وسوسہ قلبی بھی سراسر قلت فہم اور کور باطنی کی وجہ سے سائل کے دل میں پیدا ہوا کیونکہ قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت نہیں جس سے معلوم ہوتا ہو کہ شیطان آدم کو بہکانے اور گمراہ کرنے کا قصد نہیں گرے گا یا آدم اس کے بہکانے میں کبھی نہیں آئے گا۔ ہاں قرآن شریف میں ایسی آیتیں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے شیطان کے بہکانے سے ایسے وبال میں نہیں پڑتے جس سے اِن کا انجام بدہو بلکہ حضرت خداوندکریم جلشانہٗ جلد تر اُن کا تدارک فرماتا ہے اور اپنے ظل حفاظت میں لے لیتا ہے سو ایسا ہی آدم کے حق میں اُس نے کہا کہ آدم صفی اللہ خلیفۃ اللہ ہے اس کاانجام ہرگز بد نہیں ہوگا اور خدا کے محبوب بندوں میں رہے گا۔ چنانچہ یہ امر ایسا ہی ظہور میں آیا اور خدا نے آخر میں بھی آدم کوایسا ہی چن لیا جیسا کہ پہلے برگزیدہ تھا۔ غرض یہ اعتراض معترض بھی سراسر تعصب اور جہالت پر مبنی ہے نہ عقلمندی اور انصاف