قدرت کی جو پرمیشور میں بالاتفاق تسلیم ہو چکی ہے زاویہ اختفا میں رہے گی اور بپایہ ثبوت نہیں پہنچے گی اس لئے کہ جب پرمیشور نے خود ایجاد اپنے سے بلاتوسل اسباب کے کوئی چیز محض قدرت کاملہ اپنی سے پیدا ہی نہیں کی تو ہم کو کہاں سے معلوم ہو کہ اس میں ذاتی قدرت بھی ہے اگر یہ کہو کہ اس میں کچھ ذاتی قدرت نہیں تو اس اعتقاد سے وہ پرادھین یعنی محتاج بالغیر ٹھہرے گا اور یہ بہ بداہت عقل باطل ہے۔ غرض پرمیشور کا خالق ارواح ہونا تو ایسا ضروری امر ہے جو بغیر تجویز مخلوقیت ارواح کے سب کارخانہ خدائی کا بگڑ جاتا ہے لیکن دوسرا خدا پیدا کرنا صفت وحدت ذاتی کے برخلاف ہے پھر کس طرح پرمیشور ایسے امر کی طرف متوجہ ہو کہ جس سے اس کی صفت قدیمہ کا بطلان لازم آوے اور نیز اس صورت میں جو روح غیر مخلوق اور بے انت مانے جائیں کل ارواح صفت انادی اور غیر محدود ہونے میں خدا سے شریک ہو جائیں گی اور علاوہ اس کے پرمیشور بھی اپنی صفت قدیم سے جو پیدا کرنا بلا اسباب ہے محروم رہے گا اور یہ ماننا پڑے گا کہ پرمیشور کو صرف روحوں پر جمعداری ہی جمعداری ہے اور ان کا خالق اور واجب الوجود نہیں۔
پھر بعد اس کے باوا صاحب اسی اپنے جواب میں روحوں کے انتہا ہونے کا جھگڑا لے بیٹھے ہیں جس کو ہم پہلے اس سے ۹ اور ۱۶؍ فروری سفیر ہند میں ۱۴ دلائل پختہ سے ردّ کر چکے ہیں لیکن باوا صاحب اب تک انکار کئے جاتے ہیں۔ پس ان پر واضح رہے کہ یوں تو انکار کرنا اور نہ ماننا سہل بات ہے اور ہر ایک کو اختیار ہے کہ جس بات پر چاہے رہے پر ہم تو تب جانتے کہ آپ کسی دلیل ہماری کو ردّ کر کے دکھلاتے۔ اور بے انت ہونے کی وجوہات پیش کرتے آپ کو سمجھنا چاہئے کہ جس حالت میں ارواح بعض جگہ نہیں پائے جاتے تے بے انت کس طرح ہوگئے کیا بے انت کا یہی حال ہوا کرتا ہے کہ جب ایک جگہ تشریف لے گئے تو دوسری جگہ خالی رہ گئی اگر پرمیشوربھی اسی طرح کا بے انت ہے تو کارخانہ خدائی کا معرض خطر میں ہے۔ افسوس کہ آپ نے ہمارے اُن پختہ دلائل کو کچھ نہ سوچا اور کچھ غور نہ کیا اور یونہی جواب لکھنے کو بیٹھ گئے حالانکہ آپ کی منصفانہ طبیعت پر یہ فرض تھا کہ اپنے جواب میں اس امر کا التزام کرتے کہ ہر ایک دلیل ہماری تحریر کر کے اس کے محاذات میں اپنی دلیل