وہم کے دفع میں پہلے ہی لکھا گیا تھا کہ پرمیشور کی قدرت کاملہ میں ہرگز یہ بہ شرط نہیں کہ ضرور انسان کی سمجھ میں آ جایا کرے۔ دنیا میں اس قسم کے ہزار ہا نمونہ موجود ہیں کہ قدرت مدرکہ انسان کی ان کی کنہ حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی اور علاوہ اس کے ایک امر عقل میں نہ آنا اور چیز ہے اور اس کا محال ثابت نہیں کر سکتا کہ خدا سے روح نہیں بن سکتے تھے کیونکہ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا کیا ممکن نہیں جو ایک کام خدا کی قدرت کے تحت داخل تو ہو لیکن عقل ناقص ہماری اس کے اسرار تک نہ پہنچ سکے؟ بلکہ قدرت تو حقیقت میں اسی بات کا نام ہے جو داغ احتیاج اسباب سے منزہ اور پاک اور ادراک انسانی سے برتر ہو۔ اوّل خدا کو قادر کہنا اور پھر یہ زبان پر لانا کہ اس کی قدرت اسباب مادی سے تجاوز نہیں کرتی حقیقت میں اپنی بات کو آپ ردّ کرنا ہے کیونکہ اگر وہ فی حد ذاتہِ قادر ہے تو پھر کسی سہارے اور آسرے کا محتاج ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ کیا آپ کی پستکوں میں قادر اور سرب شکتی مان اسی کو کہتے ہیں جو بغیر توسل اسباب کے کارخانہ قدرت اس کی کا بندر ہے۔ اور نراہ اس کے حکم سے کچھ بھی نہ ہو سکے۔ شاید آپ کے ہاں لکھا ہوگا مگر ہم لوگ تو ایسے کمزور کو خدا نہیں جانتے ہمارا تو وہ قادر خدا ہے کہ جس کی یہ صفت ہے کہ جو چاہا سو ہو گیا اور جو چاہے گا سو ہوگا۔
پھر باوا صاحب اپنے جواب میں مجھ کو فرماتے ہیں کہ جس طرح تم نے یہ مان لیا کہ خدا دوسرا خدا نہیں بنا سکتا اسی طرح یہ بھی ماننا چاہئے کہ خدا روح نہیں پیدا کر سکتا۔ اس فہم اور ایسے سوال سے اگر میں تعجب نہ کروں تو کیا کروں صاحب من تو میں تو اس وہم کا کئی دفعہ آپ کو جواب دے چکا اب میں بار بار یہاں تک لکھوں میں حیران ہوں کہ آپ کو یہ بین فرق کیوں سمجھ میں نہیں آتا اور کیوں دل پر سے یہ حجاب نہیں اُٹھتا کہ جو روحوں کے پیدا کرنے کو دوسرے خدا کی پیدائش پر قیاس کرنا خیال فاسد ہے کیونکہ دوسرا خدا بنانے میں وہ صفت ازلی پرمیشور کی جو واحد لاشریک ہونا ہے نابود ہو جائے گی۔ لیکن پیدائش ارواح میں کسی صفت واجب الوجود کا ازالہ نہیں بلکہ ناپید کرنے میں ازالہ ہے کیونکہ اس سے صفت