ہو چکا ہے) روحوں کے پیدا کرنے کی کس قدر قدرت رکھتا ہے۔ کیونکہ خدا کے قادر ہونے کو تو ہم اور آپ دونوں مانتے ہیں پس اس وقت تک تم ہم میں اور آپ میں کچھ تنازعہ نہ تھا۔ پھر تنازعہ تو آپ نے پیدا کیا جو روحوں کے پیدا کرنے سے اس قادر پرمیشور کو عاجز سمجھا۔ اس صورت میں آپ خود منصف ہوں اور بتلائیں کہ بار ثبوت کس کے ذمہ ہے؟ اور اگر ہم بطریق تنزل یہ بھی تسلیم کر لیں کہ اگرچہ دعویٰ آپ نے کیا مگر ثبوت اس کا ہمارے ذمہ ہے پس آپ کو مژدہ ہو کہ ہم نے سفیر ہند ۲۱؍ فروری میں خدا کے خالق ہونے کا ثبوت کامل دے دیا ہے۔ جب آپ بنظر انصاف پرچہ مذکور کو ملاحظہ فرمائیں گے تو آپ کی تسلی کامل ہو جائے گی اور خود ظاہر ہے کہ خدا تو وہی ہونا چاہئے جو موجد مخلوقات ہو نہ یہ کہ زور آور سلاطین کی طرح صرف غیروں پر قابض ہو کر خدائی کرے۔
اور اگر آپ کے دل میں یہ شک گزرتا ہے کہ پرمیشور جو اپنی نظیر نہیں پیدا کر سکتا شاید اُسی طرح ارواح کے پیدا کرنے پر بھی قادر نہ ہوگا۔ پس اس کا جواب بھی پرچہ مذکور ۹؍ فروری میں پختہ دیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا ایسے افعال ہرگز نہیں کرتا جن سے اُس کی صفات قدیم کا زوال لازم آوے جیسے وہ اپنا شریک نہیں پیدا کر سکتا۔ اپنے آپ کو ہلاک نہیں کر سکتا کیونکہ اگر ایسا کرے تو اُس کی صفات قدیمہ جو وحدت ذاتی اور حیات ابدی ہے زائل ہو جائیں گی۔ پس وہ قدوس خدا کوئی کام برخلاف اپنی صفات ازلیہ کے ہرگز نہیں کرتا۔ باقی سب افعال پر قادر ہے۔ پس آپ نے جو روحوں کی پیدائش کو شریک الباری کی پیدائش پر قیاس کیا تو خطا کی۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ یہ آپ کا قیاس مع الفارق ہے۔ ہاں اگر یہ ثابت کر دیتے کہ پیدا کرنا ارواح کا بھی مثل پیدا کرنے نظیر اپنی کے خدا کی کسی صفت عظمت اور جلال کے برخلاف ہے تو دعویٰ آپ کا بلاشبہ ثابت ہو جاتا۔
پس آپ نے جو تحریر فرمایا ہے کہ یہ ظاہر کرنا چاہئے کہ خدا نے روح کہاں سے پیدا کئے اس تقریر سے صاف پایا جاتا ہے آپ کو خدا کے قدرتی کاموں سے مطلق انکار ہے اور اس کو مثل آدم زاد کے محتاج باسباب سمجھتے ہیں۔ اور اگر آپ کا اس تقریر سے یہ مطلب ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح پرمیشور روحوں کو پیدا کر لیتا ہے تو اس