واضح ہو جو بمجرد جواب دینے کے مطالبہ پر روپیہ کا نہیں ہو سکتا جیسا کہ باوا صاحب کی تحریر سے مفہوم ہوتا ہے بلکہ مطالبہ کا وہ وقت ہوگا کہ جب کل آرائے تحریری ثالثان اہل انصاف کے جن کے اسماء مبارکہ تنقیح شرط چہارم میں ابھی درج کروں گا سفیرہند میں بشرائط مشروطہ پرچہ ہذا کے طبع ہو کر شائع ہو جائیں گی۔ (۴) شرط چہارم میں باوا صاحب نے صاحبان مندرجہ ذیل کو منصفان تنقید جواب قرار دیا ہے مولوی سید احمد خان صاحب، منشی کنہیا لال صاحب، منشی اندر من صاحب مجھ کو منصفان مجوزہ باوا صاحب میں کسی نہج کا عذر نہیں بلکہ میں اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو انہوں نے تجویز تقرر ثالثان میں مولوی سید احمد خان صاحب کا نام بھی جو ہم سے اخوت اسلام رکھتے ہیں درج کر دیا۔ اس لئے میں بھی اپنے منصفان مقبولہ میں ایک فاضل آریہ صاحب کو جن کی فضیلت میں باوا صاحب کو بھی کلام نہیں باعتماد طبیعت صالحانہ اور رائے منصفانہ اُن کی کے داخل کرتا ہوں جن کے نام نامی یہ ہیں سوامی پنڈت دیانند سرستی، حکیم محمد شریف صاحب امرتسری، مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب لاہوری لیکن اتنی عرض اور ہے کہ علاوہ ان صاحبوں کے کہ فریقین کے ہم مذہب ہیں دو صاحب مسیحی مذہب بھی ممبر تنقید جواب کے قرار پانے چاہئیں۔ سو میری دانست میں پادری رجب علی صاحب اور بابو رلارام صاحب جو علما وہ فضیلت علمی اور طبیعت منصفانہ کے اس بحث جاری شدہ سے بخوبی واقف ہیں بشرطیکہ صاحبین موصوفین براہ مہربانی اس شوریٰ میں داخل ہونا منظور کر لیں۔ اور آپ کو بھی اس میں کچھ کلام نہ ہو بہتر اور انسب ہیں۔ ورنہ بالآخر اس طرح تجویز ہوگی کہ ایک صاحب مسیحی مذہب آپ کو قبول کر کے اطلاع دے دیں اور ایک کے اسم مبارک سے میں مطلع کروں گا اور تصفیہ اس طرح پر ہوگا کہ بعد طبع ہونے کے جواب آپ کے اُن سب صاحبوں کو جو حسب مرضی فریقین ثالث قرار پائے ہیں بذریعہ خانگی خطوط کے اطلاع دی جائے گی