لیکن ہر ایک فریق ہم دونوں میں سے ذمہ دار ہوگا کہ اپنے منفصین مجوزہ کو آپ اطلاع دے۔ تب صاحبان منصفین اوّل ہمارے سوال نمبر۱ کو دیکھیں گے اور بعد اُس کے تبصرہ مشمولہ شرائط ہذا کو جس میں آپ کے جواب الجواب کا جو ۱۸؍ فروری آفتاب پنجاب میں طبع ہوا تھا ازالہ ہے بغور ملاحظہ فرمائیں گے۔ پھر آپ کا جواب بتدبر تمام پڑھ کر جانچیں گے کہ آیا اس جواب سے وجوہات ہمارے ردّ ہوگئے یا نہیں اور یہ بھی دیکھیں گے کہ آپ نے باثبات دونو امر مندرجہ اشتہار کے کیا کیا وجوہات پیش کئے ہیں لیکن یہ امر کسی منصف کے اختیار میں نہ ہوگا کہ صرف اس قدر رائے ظاہر کرے کہ ہماری دانست میں یہ ہے یا وہ ہے بلکہ اگر کوئی ایسی رائے ظاہر کرے تو یہ سمجھا جائے گا کہ گویا اُس نے کوئی رائے ظاہر نہیں کیا۔ غرض کوئی رائے شہادت میں نہیں لیا جائے گا جب تک اس صورت سے تحریر نہ ہو کہ اصل وجوہات متخاصمین کو پورا پورا بیان کر کے بتقریر مدلل ظاہر کرے کہ کس طور سے یہ وجوہات ٹوٹ گئیں یا بحال رہیں اور علاوہ اس کے یہ سب منصفانہ آرا سے سفیر ہند میں درج ہونگے۔ نہ کسی اور پرچہ میں بلکہ صاحبان منصفین اپنی اپنی تحریر کو براہ راست مطبع ممدوح الذکر میں ارسال فرمائیں گے باستثناء بابورلارام صاحب کے کہ اگر وہ اس شوریٰ تنقید جواب میں داخل ہوئے تو اُن کو اپنا رائے اپنے پرچہ میں طبع کرنا اختیار ہوگا اور جب کہ یہ سب آرائے بقید شرائط متذکرہ بالا کے طبع ہو جائیں گی تو اُس وقت کثرت رائے پر فیصلہ ہوگا اور اگر ایک نمبر بھی زیادہ ہوا تو باوا صاحب کوڈگری ملے گی ورنہ آنحضرت مغلوب رہیں گے۔ اشتہار مبلغ پانچ سَو روپیہ میں راقم اُس سوال کا جو آریہ سماج کی نسبت پرچہ ۹؍ فروری اور بعد اُس کے سفیر ہند میں بدفعات درج کر چکا ہے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کر کے لکھ دیتا ہوں کہ اگر باوا نرائن سنگھ صاحب یا کوئی اور صاحب منجملہ آریہ سماج کے جو اُن سے