کیونکہ مؤثر بالقسر اسے کہتے ہیں کہ جس کا وجود اور بقاء اس کے متاثر کے بقاء کے واسطے شرط نہ ہو جیسے زید نے مثلاً ایک پتھر چلایا اور اُسی وقت پتھر چلاتے ہی مر گیا تو بیشک اسی پتھر کو جو ابھی اس کے ہاتھ سے چھٹا ہے بعد موت زید کے بھی حرکت رہے گی۔ پس اسی طرح اگر بقول آریہ سماج والوں کے خدا تعالیٰ کومحض مؤثر بالقسر قرار دیا جائے تو اس سے نعوذ باللہ یہ لازم آتا ہے کہ اگر پرمیشور کی موت بھی فرض کریں تو بھی ارواح اور ذرات کا کچھ بھی حرج نہ ہو کیونکہ بقول پنڈت دیانند صاحب کے کہ جس کو اُنہوں نے سیتارتھ پرکاش میں درج فرما کر توحید کا ستیاناس کیا ہے اور نیز بقول پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کے جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے تقلید پنڈت دیانند صاحب کی اختیار کی ہے۔ وید میں یہ لکھا ہے کہ سب ارواح اپنی بقا اور حیات میں بالکل پرمیشور سے بے غرض ہیں اور جیسے بڑھئی کو چوکی سے اور کمہار کو گھڑے سے نسبت ہوتی ہے وہی پرمیشور کو مخلوقات سے نسبت ہے۔ یعنی صرف جوڑنے جاڑنے سے ٹنڈا پرمیشر گری کا چلاتا ہے اور قیوم چیزوں کا نہیں ہے۔ لیکن ہر ایک دانا جانتا ہے کہ ایسا ماننے سے یہ لازم آتا ہے کہ پرمیشور کا وجود بھی مثل کمہاروں اور نجاروں کے وجود کے بقا اشیاء کے لئے کچھ شرط نہ ہو بلکہ جیسے بعد موت کمہاروں اور بڑھیوں کے گھڑے اور چوکیاں اسی طرح سے بنے رہتے ہیں اسی طرح بصورت فوت ہونے پر پرمیشور کے بھی اشیاء موجودہ میں کچھ بھی خلل واقع نہ ہو سکے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ خیال پنڈت صاحب کا جو پرمیشور کو صانع ہونے میں کمہار اور بڑھئی سے مشابہت ہے قیاس مع الفارق ہے۔ کاش اگر وہ خدا کو قیوم اشیاء کا مانتے اور نجاروں سا نہ جانتے تو ان کو یہ تو کہنا نہ پڑتا کہ پرمیشور کی موت فرض کرنے سے روحوں کا کچھ بھی نقصان نہیں۔ لیکن شاید وید میں بھی لکھا ہوگا ورنہ میں کیونکر کہوں کہ پنڈت صاحب کو قیومت پروردگار جو اجلیٰ بدیہیاتت