ہے کچھ شک نہیں ہے اور اگر پنڈت صاحب پرمیشور کو قیوم سب چیزوں کا مانتے ہیں تو پھر اس کو کمہاروں اور معماروں سے نسبت دینا کس قسم کی بدیا ہے اور وید میں اس پر دلیل کیا لکھی ہے۔ دیکھو فرقان مجید میں صفت قیومی پروردگار کی کئی مقام میں ثابت کی ہے جیسا کہ مکرر اس دوسری آیت میں بھی فرمایا ہے۔ سورۃ النور اللّٰہ نور السموات والارض یعنی خدا آسمان و زمین کا نور ہے۔ اسی سے طبقہ سفلی اور علوی میں حیات اور بقا کی روشنی ہے۔ پس اس ہماری تحقیق سے جز اوّل قیاس مرکب کی ثابتہوئی اور صغریٰ جز ثانی قیاس مرکب کا وہی ہے جو جز اوّل قیاس کا نتیجہ ہے اور جز اوّل قیاس مرکب کی ابھی ثابت ہوچکی ہے پس نتیجہ بھی ثابت ہو گیا اور کبریٰ جزو ثانی کا جو زندہ ازلی ابدی اور قیوم سب چیزوں کا ہو وہ خالق ہوتا ہے اس طرح پر ثابت ہے کہ قیوم اُسے کہتے ہیں کہ جس کا بقا اور حیات دوسری چیزوں کے بقا اور حیات اور اُن کے کل مایحتاج کے حصول کا شرط ہو… اور شرط کے یہ معنی ہیں کہ اگر اُس کا عدم فرض کیا جائے تو ساتھ ہی مشروط کا عدم فرض کرنا پڑے۔ جیسے کہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کا وجود نہ ہو تو کسی چیز کا وجود نہ ہو پس یہ قول کہ اگر خدا تعالیٰ کا وجود نہ ہو تو کسی چیز کا وجود نہ ہو بعینہٖ اس قول کے مساوی ہے کہ خدا تعالیٰ کا وجود نہ ہوتا تو کسی چیز کا وجود نہ ہوتا۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کا وجود دوسری چیزوں کے وجود کا علت ہے اور خالقیت کے بجز اس کے اور کوئی معنی نہیں کہ وجود خالق کا وجود مخلوق کے لئے علت ہو۔ پس ثابت ہو گیا کہ خدا خالق ہے اور یہی مطلب تھا۔ الراقم مرزا غلام احمد۔رئیس قادیان