اور مخلوقات زمین کا وہی خالق ہے اور وہی مالک اور شکل اس قیاس کی جو آیت شریف میں وارد ہے باقاعدہ منطقیہ اس طرح پر ہے (جز اوّل قیاس مرکب کی) (صغریٰ) خدا کو بلا شرکتہ الغیر تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے (کبری) اور جس کو تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہوتا ہے (نتیجہ) خدا زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہے۔ (جز ثانی قیاس مرکب کی کہ جس میں نتیجہ قیاس اوّل کا صغریٰ قیاس کا بنایا گیا ہے (صغری) (خداوند ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہے۔ (کبریٰ) اور جو زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہو وہ تمام اشیاء کا خالق ہوتا ہے) (نتیجہ)(خدا تمام چیزوں کا خالق ہے) صغریٰ جزو اوّل قیاس مرکب کا یعنی یہ قضیہ کہ خدا کا بلاشرکتہ الغیرے تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے باقرار فریق ثانی ثابت ہے۔ پس حاجت اقامت دلیل کی نہیں اور کبریٰ جز اوّل قیاس مرکب کا یعنی یہ قضیہ کہ جس کو تمام اشیاء کے معبود ہونے کا حق ازلی، ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی اور تمام اشیاء کا قیوم ہوتا ہے اس طرح پر ثابت ہے کہ اگر خدا تعالیٰ ازلی ابدی زندہ نہیں ہے تو یہ فرض کرنا پڑا کہ کسی وقت پیدا ہو یا آئندہ کسی وقت باقی نہیں رہے گا۔ دونوں صورتوں میں ازلی ابدی معبود ہونا اس کا باطل ہوتا ہے کیونکہ جب اس کا وجود ہی نہ رہا تو پھر عبادت اس کی نہیں ہو سکتی کیونکہ عبادت معدوم کی صحیح نہیں ہے اور جب وہ بوجہ معدوم ہونے کے معبود ازلی ابدی نہ رہا تو اس سے یہ قضیہ کاذب ہوا کہ خدا کو معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے۔ حالانکہ ابھی ذکر ہوچکا ہے کہ یہ قضیہ صادق ہے۔ پس ماننا پڑا کہ جس کو تمام اشیاء کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی ہوتا ہے۔
اسی طرح اگر خدا تمام چیزوں کا قیوم نہیں ہے یعنی حیات اور بقا دوسروں کی اس کی حیات اور بقا پر موقوف نہیں تو اس صورت میں وجود اس کا بقاء مخلوقات کے واسطے کچھ شرط نہ ہوگا بلکہ تاثیر اس کی بطور مؤثر بالقسر ہوگی۔ نہ بطور علت حقیقۃ حافظ الاشیاء کے