لئے واجب ٹھہرتی ہے کہ بموجب اصول متقررہ فلسفہ کے ہم کو اختیار ہے کہ یہ فرض کریں کہ مثلاً ایک مدت تک تمام ارواح موجودہ ابدان متناسبہ اپنے سے متعلق ہیں۔ پس جب ہم نے یہ امر فرض کیا تو یہ فرض ہمارا اس دوسرے فرض کو بھی مستلزم ہوگا کہ اب تا انقضائے اس مدت کے ان جنینوں میں جو رحموں میں تیار ہوئے ہیں کوئی روح داخل نہیں ہوگا حالانکہ جنینوں کا بغیر تعلق روح کے معطل پڑے رہنا بہ بداہت عقل باطل ہے پس جو امر مستلزم باطل ہے وہ بھی باطل۔ پس ثبوت متقدمین سے یہ نتیجہ ثابت ہو گیا کہ خدا تعالیٰ کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی ضروری ہے اور یہی مطلب تھا۔
دلیل ششم قرآن مجید میں بماوہ قیاس مرکب قائم کی گئی اور قیاس مرکب کی یہ تعریف ہے کہ ایسے مقدمات سے مؤلف ہو کر اُن سے ایسا نتیجہ نکلے کہ اگرچہ وہ نتیجہ خود بذاتہٖ مطلب کو ثابت نہ کرتا ہو لیکن مطلب بذریعہ اس کے اس طور سے ثابت ہو کہ اُسی نتیجہ کو کسی اور مقدمہ کے ساتھ ملا کر ایک دوسرا قیاس بنایا جائے۔ پھر خواہ نتیجہ مطلوب اسی قیاس دوم کے ذریعہ سے نکل آوے یا اور کسی قدر اسی طور سے قیاسات بنا کر مطلوب حاصل ہو دونوں صورتوں میں اس قیاس کو قیاس مرکب کہتے ہیں اور آیت شریف جو اس قیاس پر متضمن ہے یہ ہے دیکھو سورہ بقر الجزو۳۔ اللّٰہ لا الہ الا ھو الحی القیوم لاتاخذہ سنۃ ولانوم لہ مافی السموات وما فی الارض۔ یعنی خدا اپنی ذات میں سب مخلوقات کے معبود ہونے کا ہمیشہ حق رکھتا ہے جس میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ اس دلیل روشن سے کہ وہ زندہ ازلی ابدی ہے اور سب چیزوں کا وہی قیوم ہے یعنی قیام اور بقا ہر چیز کا اسی کے بقا اور قیام سے ہے اور وہی ہر چیز کو ہر دم تھامے ہوئے ہے نہ اس پر اونگ طاری ہوتی ہے نہ نیند اُسے پکڑتی ہے۔ یعنی حفاظت مخلوق سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ پس جب کہ ہر ایک چیز کی قائمی اسی سے ہے پس ثابت ہے کہ ہر ایک مخلوقات آسمانوں کا