اور ہر تعداد تک اُن چیزوں کا میسر ہو جانا کہ جن کا موجود کرنا صانع کے اختیار تام میں نہیں عندالعقل ممکن التخلف ہے اور عدم تخلف پر کوئی برہان فلسفی قائم نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو کوئی صاحب پیش کرے وجہ اس کی ظاہر ہے کہ مفہوم اس عبارت کا کہ فلاں امر کا کرنا زید کے اختیار تام میں نہیں اس عبارت کے مفہوم سے مساوی ہے کہ ممکن ہے کہ کسی وقت وہ کام زید سے نہ ہو سکے۔ پس ثابت ہوا کہ صانع تام کا بجز اس کے ہرگز کام نہیں چل سکتا کہ جب تک اس کی قدرت بھی تام نہ ہو اسی واسطے کوئی مخلوق اہل حرفہ میں سے اپنے حرفہ میں صانع تام ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا بلکہ کل اہل صنائع کا دستور ہے کہ جب کوئی بار بار اُن کی دوکان پر جا کر ان کو دق کرے کہ فلاں چیز ابھی مجھے بنا دو تو آخر اُس کے تقاضے سے تنگ آ کر اکثر بول اُٹھتے ہیں کہ میاں میں کچھ خدا نہیں ہوں کہ صرف حکم سے کام کر دوں فلاں فلاں چیز ملے گی تو پھر بنا دوں گا۔ غرض سب جانتے ہیں کہ صانع تمام کے لئے قدرت تام اور ربوبیت شرط ہے۔ یہ بات نہیں کہ جب تک زید نہ مرے بکر کے گھر لڑکا پیدا نہ ہو۔ یا جب تک خالد فوت نہ ہو ولید کے قالب میں جو ابھی پیٹ میں ہے جان نہ پڑ سکے۔ پس بالضرورت صغری ثابت ہوا۔
اور کبریٰ شکل کا یعنی یہ کہ مخلوقات کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ کے ضروری ہے۔ خود ثبوت صغریٰ سے ثابت ہوتا ہے اور نیز ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ میں قدرت ضروریہ تامہ نہ ہو تو پھر قدرت اس کی بعض الفاقی امور کے حصول پر موقوف ہوگی اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں عقل تجویز کر سکتی ہے کہ اتفاقی امور وقت پر خدا تعالیٰ کو میسر نہ ہو سکیں کیونکہ وہ اتفاقی ہیں ضروری نہیں۔ حالانکہ تعلق پکڑنا روح کا جنین کے جسم سے بر وقت تیاری جسم اس کے لازم ملزوم ہے۔ پس ثابت ہوا کہ فعل خداتعالیٰ کا بطور قدرت تامہ کے ضروری ہے اور نیز اس دلیل سے ضرورت قدرت تامہ کی خدا تعالیٰ کے