اِدھر اُدھر سے لے کر گزارہ کرتا تو اس کو قدرت تام ہرگز حاصل نہ ہوتی اور ہمیشہ اور ہر وقت کامیاب نہ ہو سکتا بلکہ کبھی نہ کبھی ضرور ٹوٹ آ جاتی اور پیدا کرنے سے عاجز رہ جاتا۔ خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ جس شخص کا فعل ربوبیت تامہ سے نہ ہو یعنی از خود پیدا کنندہ نہ ہو اس کو قدرت تامہ مخفی حاصل نہیں ہو سکتی لیکن خدا کو قدرت تامہ حاصل ہے کیونکہ قسم قسم کی پیدائش بنانا اور ایک بعد دوسرے کے بلاتخالف ظہور میں لانا اور کام کو ہمیشہ برابر چلانا قدرت تامہ کی کامل نشانی ہے پس اس سے ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کو ربوبیت تامہ حاصل ہے اور درحقیقت وہ ربّ الاشیاء ہے نہ صرف دنیا اور اس کے کارخانہ کا کبھی کا خاتمہ ہو جاتا کیونکہ جس کا فعل اختیار تام سے نہیں وہ ہمیشہ اور ہر وقت اور ہر تعداد پر ہرگز قادر نہیں ہو سکتا۔ اور شکل اس قیاس کی جو آیت شریف میں درج ہے باقاعدہ منطقیہ اس طرح پر ہے کہ جس شخص کا فعل کسی وجود کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ ضروری ہو اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ یعنی عدم سے ہست کرنا بھی ضروری ہے لیکن خدا کا فعل مخلوقات کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ ضروری ہے۔ پس نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی بھی ضروری ہے۔ ثبوت صغریٰ کا یعنی اس بات کا جس صانع کے لئے قدرت تامہ ضروری ہے اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی بھی ضروری ہے اس طرح پر کہ عقل اس بات کی ضرورت کو واجب ٹھہراتی ہے کہ جب کوئی ایسا صانع کہ جس کی نسبت ہم تسلیم کر چکے ہیں کہ اس کو اپنی کسی صنعت کے بنانے میں حرج واقعہ نہیں ہوتا کسی چیز کا بنانا شروع کرے تو سب اسباب تکمیل صنعت کے اُس کے پاس موجود ہونے چاہئیں اور ہر وقت اور ہر تعداد تک میسر کرنا ان چیزوں کا جو وجود مصنوع کے لئے ضروری ہیں اس کے اختیار میں ہونا چاہئے اور ایسا اختیار نام بجز اس صورت کے اور کسی صورت میں مکمل نہیں کہ صانع اس مصنوع کا اس کے اجزا پیدا کرنے پر قادر ہو کیونکہ ہر وقت