اور نیز جب کہ یہ صفت قدیم سے خدا کی ذات سے قطعاً مفقود ہے تو خوشی خاطر کہاں رہی اور اگر کہو کہ مجبوری سے تو وجود کسی اور قاسر کا ماننا پڑا کہ جس نے خدا کو مجبور کیا اور نفاذ اختیارات خدائی سے اس کو روکا یا یہ فرض کرنا پڑا کہ وہ قاسر اس کا اپناہی ضعف اور ناتوانی ہے کوئی خارجی قاسر نہیں بہرحال وہ مجبور ٹھہرا تو اس صورت میں وہ خدائی کے لائق نہ رہا۔ پس بالضرورت اس سے ثابت ہوا کہ خداوند تعالیٰ داغ مجبوری سے کہ بطلان الوہیت کو مستلزم ہے پاک اور منزہ ہے اور صفت کاملہ خالقیت اور عدم سے پیدا کرنے کی اس کو حاصل ہے اور یہی مطلب تھا۔ دلیل پنجم فرقان مجید میں خالقیت باری تعالیٰ پر بمادہ قیاس استثنائی قائم کی گئی ہے اور قیاس استثنائی اس قیاس کو کہتے ہیں کہ جس میں عین نتیجہ یا نقیض اس کی بالفعل موجود ہو اور دو مقدموں سے مرکب ہو یعنی ایک شرطیہ اور دوسرے وضیعہ سے۔ چنانچہ آیت شریف جو اس قیاس پر متصمن ہے یہ ہے دیکھو سورہ الزم جزو ۲۳۔ یخلقکم فی بطون امھتکم خلقاً من بعد خلق فی ظلمات ثلاث ذالکم اللّٰہ ربکم یعنی وہ تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین اندھیرے پردوں میں پیدا کرتا ہے اس حکمت کاملہ سے کہ ایک پیدائش اور قسم کی اور ایک … اور قسم کی بناتا ہے یعنی ہر عضو کو صورت مختلف اور خاصیتیں اور طاقتیں الگ الگ بخشتا ہے یہاں تک کہ قالب بیجان میں جان ڈال دیتا ہے نہ اس کو اندھیرا کام کرنے سے روکتا ہے اور نہ مختلف قسموں اور خاصیتوں کے اعضا بنانا اُس پر مشکل ہوتا ہے اور نہ سلسلہ پیدائش کے ہمیشہ جاری رکھنے میں اس کو کچھ دقت اور حرج واقعہ ہوتا ہے۔ ذالکم اللّٰہ ربکم وہی جو ہمیشہ اس سلسلہ قدرت کو برپا اور قائم رکھتا ہے وہی تمہارا ربّ ہے۔ یعنی اسی قدرت تامہ سے اس کی ربوبیت تامہ جو عدم سے وجود اور وجود سے کمال وجود بخشنے کو کہتے ہیں ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ ربّ الاشیاء نہ ہوتا اور اپنی ذات میں ربوبیت تامہ نہ رکھتا اور صرف مثل ایک بڑھئی یا کاریگر کے