اور سب کمالات ذات کامل واجب الوجود کو حاصل ہیں۔ پس نتیجہ یہ ہوا کہ نیست سے ہست کرنے کاکمال بھی ذات باری کو حاصل ہے۔ ثبوت مفہوم صغری کا یعنی اس بات کا کہ محض اپنی قدرت سے پیدا کرنا ایک کمال ہے اس طرح پر ہوتا ہے کہ نقیض اس کی یعنی یہ امر کہ محض اپنی قدرت سے پیدا کرنے میں عاجز ہونا جب تک باہر سے کوئی مادہ آ کر معاون و مددگار نہ ہو ایک بھاری نقصان ہے۔ کیونکہ اگر ہم یہ فرض کریں کہ مادہ موجودہ سب جا بجا خرچ ہوگیا تو ساتھ ہی یہ فرض کرنا پڑتا ہے کہ اب خدا پیدا کرنے سے قطعاً عاجز ہے حالانکہ ایسا نقص اُس ذات غیر محدود اور قادر مطلق پر عائد کرنا گویا اس کی الوہیت سے انکار کرنا ہے۔
سوائے اس کے علم الہٰیات میں یہ مسئلہ بدلائل ثابت ہوچکا ہے کہ مستجمع الکمالات ہونا واجب الوجود کا تحقیق الوہیت کے لئے شرط ہے یعنی یہ لازم ہے کہ کوئی مرتبہ کمال کا مراتب ممکن التصور سے جو ذہن اور خیال میں گذر سکتا ہے اس ذات کامل سے فوت نہ ہو پس بلاشبہ عقل اس بات کو چاہتی ہے کہ کمال الوہیت باری تعالیٰ کا یہی ہے کہ سب موجودات کا سلسلہ اسی کی قدرت تک منتہی ہو نہ یہ کہ صفت قدامت اور ہستی حقیقی کے بہت سے شریکوں میں بٹی ہوئی ہو اور قطع نظر ان سب دلائل اور براہین کے ہر ایک سلیم الطبع سمجھ سکتا ہے کہ اعلیٰ کام بہ نسبت ادنیٰ کام کے زیادہ تر کمال پر دلالت کرتا ہے۔ پس جس صورت میں تالیف اجزاء عالم کمال الٰہی میں داخل ہے تو پھر پیدا کرناعالم کا بغیر احتیاج اسباب کے جو کروڑ ہا درجہ زیادہ تر قدرت پر دلالت کرتا ہے کس قدر اعلیٰ کمال ہوگا۔ پس صغری اس شکل کا بوجہ کامل ثابت ہوا اور ثبوت کبری کا یعنی اس قضیہ کا کہ ہر ایک کمال ذات باری کو حاصل ہے اس طرح پر ہے کہ اگر بعض کمالات ذات باری کو حاصل نہیں تو اس صورت میں یہ سوال ہوگا کہ محرومی ان کمالات سے بخوشی خاطر ہے یا بہ مجبوری ہے۔ اگر کہو کہ بخوشی خاطر ہے تو یہ جھوٹ ہے کیونکہ کوئی شخص اپنی خوشی سے اپنے کمال میں نقص روا نہیں رکھتا