اگر صادق نہیں ہے تو پھر اس کی نقیض صادق ہوگی کہ ہر ایک شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے وجود پکڑ سکتی ہے اور یہ دوسرا قضیہ ہماری تحقیقات مندرجہ بالا میں ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ وجود تمام اشیاء ممکنہ کا بغیر ذریعہ واجب الوجود کے محالات خمسہ کو مستلزم ہے۔ پس اگر یہ قضیہ حیح نہیں ہے کہ کوئی شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے موجود نہیں ہو سکتی تو یہ قضیہ صحیح ہوگا کہ وجود تمام اشیاء کو محالات خمسہ لازم ہیں لیکن وجود اشیاء کا باوصف لزوم محالات خمسہ کے ایک امر محال ہے۔ پس نتیجہ نکلا کہ کسی شے کا بغیر واجب الوجود کے موجود ہونا امر محال ہے۔ اور یہی مطلوب تھا۔
دلیل چہارم قرآن مجید میں بذریعہ مادۂ قیاس اقترانی قائم کی گئی ہے۔ جاننا چاہئے کہ قیاس حجت کی تین قسموں میں سے پہلی قسم ہے اور قیاس اقترانی وہ قیاس ہے کہ جس میں عین نتیجہ کا یا نقیض اس کی بالفعل مذکور نہ ہو بلکہ بالقوہ پائی جائے اور اقترانی اس جہت سے کہتے ہیں کہ حدود اس کے یعنی اصغر اور اوسط اور اکبر مقترن ہوتی ہیں اور بالعموم قیاس حجت کے تمام اقسام سے اعلیٰ اور افضل ہے کیونکہ اس میں کلی کے حال سے جزئیات کے حال پر دلیل پکڑی جاتی ہے کہ جو بباعت استیفاتام کے مفید یقین کامل کے ہے پس وہ قیاس کہ جس کی اتنی تعریف ہے اس آیت شریفہ میں درج ہے اور ثبوت خالقیت باری تعالیٰ میں گواہی دے رہا ہے دیکھو سورہ الحشر جزو ۲۸۔ ھواللّٰہ الخالق الباری المصور لہ الاسماء الحسنی۔ وہ اللہ خالق ہے یعنی پیدا کنندہ ہے وہ باری ہے یعنی روحوں اور اجسام کو عدم سے وجود بخشنے والا ہے۔ وہ مصور ہے یعنی صورت جسمیہ اور صورت نوعیہ عطا کرنے والا ہے کیونکہ اس کے لئے تمام اسماء حسنہ ثابت ہیں۔ یعنی جمیع صفات کاملہ جو باعتبار کمال قدرت کے عقل تجویز کر سکتی ہے اُس کی ذات میں جمع ہیں لہٰذا نیست سے ہست کرنے پر بھی وہ قادر ہے کیونکہ نیست سے ہست کرنا قدرتی کمالات سے ایک اعلیٰ کمال ہے اور ترتیب مقدمات اس قیاس کی بصورت شکل اوّل کے اس طرح پر ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ پیدا کرنا اور محض اپنی قدرت سے وجود بخشنا ایک کمال ہے