ان اشارات لطیفہ کی یوں ہے کہ شق اوّل یعنی ایک شے معدوم کا بغیر فعل کسی فاعل کے خود بخود پیدا ہو جانا اس طرح پر باطل ہے کہ اس سے ترجیح بلا مرجح لازم آتی ہے کیونکہ عدم سے وجود کا لباس پہننا ایک مؤثر مرجح کو چاہتا ہے جو جانب وجود کو جانب عد م پر ترجیح دی لیکن اس جگہ کوئی مؤثر مرجح موجود نہیں اور بغیر وجود مرجح کے خود بخود ترجیح پیدا ہو جانا محال ہے۔ اور شق دوم یعنی اپنے وجود کا آپ ہی خالق ہونا اس طرح پر باطل ہے کہ اس سے تقدم شے کا اپنے نفس پر لازم آتا ہے کیونکہ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ ہر ایک شے کے وجود کی علت موجبہ اُس شے کا نفس ہے تو بالضرورت یہ اقرار اس اقرار کو مستلزم ہوگا کہ وہ سب اشیاء اپنے وجود سے پہلے موجود تھیں اور وجود سے پہلے موجود ہونا محال ہے۔ اور شق سوم یعنی ہر ایک شے کا مثل ذات باری کے علت العلل اور صانع عالم ہونا تعدد خداؤں کو مستلزم ہے اور تعدد خداؤں کا بالاتفاق محال ہے اور نیر اس سے دور یا تسلسل لازم آتا ہے اور وہ بھی محال ے۔ اور شق چہارم یعنی محیط ہونا نفس انسان کا علوم غیر متناہی پر اس دلیل سے محال ہے کہ نفس انسانی باعتبار تعین تشخیص خارجی کے متناہی ہے اور متناہی میں غیر متناہی سما نہیں سکتا۔ اس سے تحدید غیر محدود کی لازم آتی ہے۔ اور شق پنجم یعنی خود مختار ہونا اور کسی کے حکم کے ماتحت ہونا ممتنع الوجود ہے کیونکہ نفس انسان کا بضرورت استکمال ذات اپنی کے ایک مکمل کا محتاج ہے اور محتاج کا خود مختار ہونا محال ہے۔ اس سے اجتماع نقیضین لازم آتا ہے۔پس جب کہ بغیر ذریعہ خالق کے موجود ہونا موجودات کا بہرصورت ممتنع اور محال ہوا تو بالضرور یہی ماننا پڑا کہ تمام اشیاء موجودہ محدودہ کاایک خالق ہے جو ذات باری تعالیٰ ہے اور شکل اس قیاس کی جو ترتیب مقدمات صغریٰ کبریٰ سے باقاعدہ منطقیہ مرتب ہوتی ہے اس طرح ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ قضیہ فی نفسہِ صادق ہے کہ کوئی شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے موجود نہیں ہو سکتی کیونکہ