کو دریافت نہیں کر سکتا۔ قاسر خارجی سے کہ جیسے جنون یا مخموری ہے سالم الحال نہیں رہ سکتا بلکہ فی الفور اس کی قوتوں اور طاقتوں میںتنزل واقع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بذاتہ ادراک جزئیات نہیں کرسکتا کہ اس کو شیخ محقق بوعلی سینا نے نمط سابع اشارات میں بتصریح لکھا ہے حالانکہ عندالعقل ممکن تھا کہ ان سب آفات اور عیوب سے بچا ہوا ہوتا۔ پس جن جن مراتب اور فضائل کو انسان اور اُس کی روح کے لئے عقل تجویز کر سکتی ہے وہ کس بات سے ان مراتب سے محروم ہے۔ آیا تجویز کسی اور مجوز سے یا خود اپنی رضامندی سے اگر کہو کہ اپنی رضا مندی سے تو یہ صریح خلاف ہے۔ کیونکہ کوئی شخص اپنے حق میں نقص روا نہیں رکھتا اور اگر کہو کہ تجویز کسی اور مجوز سے تو مبارک ہو کہ وجود خالق ارواح اور اجسام کا ثابت ہو گیا اور یہی مدعا تھا۔ دلیل سوم قیاس الخلف ہے اور قیاس الخلف اُس قیاس کانام ہے جس میں اثبات مطلوب کا بذریعہ ابطال نقیض اُس کے کیا جاتا ہے اور اس قیاس کا علم منطق میں خلف اس جہت سے کہتے ہیں کہ خلف لغت میں بمعنی باطل کے ہیں اور اسی طرح اس قیاس میں اگر مطلوب کو کہ جس کی حقیقت کا دعویٰ ہے سچا نہ مان لیا جاوے تو نتیجہ ایسا نکلے گا جو باطل کو مستلزم ہوگا اور قیاس مذکورہ یہ ہے دیکھو سورہ الطور الجزو ۲۷۔ ام خلقوا من غیر شی ام ھم الخلقون۔ ام خلقوا السموات والارض لایقنون۔ ام عندھم خزائن ربک ام ھم المصیطرون۔ یعنی کیا یہ لوگ جو خالقیت خدا تعالیٰ سے منکر ہیں بغیر پیدا کرنے کسی خالق کے یوں ہی پیدا ہوگئے یا اپنے وجود کو آپ ہی پیدا کر لیا یا خود علت العلل ہیں جنہوں نے زمین و آسمان پیدا کیا یا ان کے پاس غیر متناہی خزانے علم اور عقل کے ہیں جن سے اُنہوں نے ان سے معلوم کیا کہ ہم قدیم الوجود ہیں یا وہ آزاد ہیں اور کسی کے قبضہ قدرت میں مقہور نہیں ہیں یہ گمان ہو کہ جب کہ ان پر کوئی غالب اور قہار ہی نہیں تو وہ اُن کا خالق کیسے ہو۔ اس آیت شریف میں یہ استدلال لطیف ہے کہ ہر پنج شقوں قدامت ارواح کہ اس طرز مدلل سے بیان فرمایا ہے کہ ہر ایک شق کے بیان سے ابطال اُس شق کا فی الفور سمجھا جاتا ہے اور تفصیل