محتاج نہیں اور اسی کا نام واجب ہے جس کو فارسی میں خدا یعنی خود آئندہ کہتے ہیں۔ پس جب ارواح مثل ذات باری تعالیٰ کے خدا اور واجب الوجود ٹھہرے تو اُن کا باری تعالیٰ کے ماتحت رہنا عندالعقل محال اور ممتنع ہوا کیونکہ ایک واجب الوجود دوسرے واجب الوجود کے ماتحت نہیں ہو سکتا۔ اس سے دور یا تسلسل لازم آتا ہے۔ لیکن حال واقعہ جو مسلم فریقین ہے یہ ہے کہ سب ارواح خدا تعالیٰ کے ماتحت ہیں کوئی اُس کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ وہ سب حادث اور مخلوق ہیں کوئی ان میں سے خدا اور واجب الوجود نہیں اور یہی مطلب تھا۔
دلیل دوم جو اِنّی ہے یعنی معلول سے علت کی طرف دلیل لی گئی ہے دیکھو سورۃ الفرقان جزو۱۸ لم یکن لہ شریک فی الملک و خلق کل شئی فقدرہ تقدیرا یعنی اس کے ملک میں کوئی اس کا شریک نہیں وہ سب کا خالق ہے اور اُس کے خالق ہونے پر یہ دلیل واضح ہے کہ ہر ایک چیز کو ایک اندازہ مقرری پر پیدا کیا ہے کہ جن سے وہ تجاوز نہیں کر سکتی۔ بلکہ اُسی اندازہ میں محصور اور محدود ہے اس کی شکل منطقی اس طرح پر ہے کہ ہر جسم اور روح ایک اندازہ مقرری میں محصور اور محدود ہے اور ہر ایک وہ چیز کہ کسی اندازہ مقرری میں محصور اور محدود ہو اس کا کوئی حاصر اور محدود ضرور ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ایک جسم اور روح کے لئے ایک حاضر اور محددہے۔ اب اثبات قضیہ اولیٰ کا یعنی محدود القدرہونے اشیاء کا اس طرح پر ہے کہ جمیع اجسام اور ارواح میں جو جو خاصیتیں پائی جاتی ہیں عقل تجویز کر سکتی ہے کہ اُن خواص سے زیادہ خواص اُن میں پائے جاتے ہیں مثلاً انسان کی دو آنکھیں ہیں اور عندالعقل ممکن تھا کہ اُس کی چار آنکھیں ہوتیں دو منہ کی طرف اور دو پیچھے کی طرف تا کہ جیسا آگے کی چیزوں کو دیکھتا ہے ویسا ہی پیچھے کی چیزوں کو بھی دیکھ لیتا اور کچھ شک نہیں کہ چار آنکھ کا ہونا بہ نسبت دو آنکھ کے کمال میں زیادہ اور فائدہ میں دو چند ہے اور انسان کے پَر نہیں اور ممکن تھا کہ مثل اور پرندوں کے اُس کے پَر بھی ہوتے اور علی ہذا القیاس نفس ناطقہ انسانی بھی ایک خاص درجہ میں محدود ہے جیسا کہ وہ بغیر تعلیم کسی معلم کے خود بخود مجہولات