ہمیں دیا ہم اُس کو واپس دیں یا واپس دینے کیلئے تیار ہو جائیں ہماری جان اُس کی امانت ہے اور وہ فرماتا ہے کہ الا دوا لا مانات الیح اھلھا سر کہ نہ در پائے عزیزش رود بار گراں است کشیدن بدوش منہ ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے بعد بہ کمال ادب عرض پرداز ہے۔ غریب نواز، پریروز ایک عرضی خدمت میں روانہ کی اس کے بعد یہاں جموں میں ایک عجیب طوفان بے تمیزی کی خبر پہنچی جس کو بضرورت تفصیل کے ساتھ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں ازالہ اوہام میں حضور والا نے ڈاکٹر جگن ناتھ کی نسبت ارقام فرمایا ہے کہ وہ گریز کر گئے اب ڈاکٹر صاحب نے بہت سے ایسے لوگوں کو جو اس معاملہ سے آگاہ تھے کہاہے۔ سیاہی سے یہ بات لکھی گئی ہے۔ سرخی سے اس پر قلم پھیر دو۔ میں نے ہرگز گریز نہیں کیا اور نہ کسی نشان کی تخصیص چاہی۔ مردہ کا زندہ کرنا میں نہیں چاہتا اور نہ خشک درخت کا ہرا ہونا۔ یعنی بلا تخصیص کوئی نشان چاہتا ہوں جو انسانی طاقت سے بالا تر ہو۔ اب ناظرین پر واضح ہو کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے ایک خط میں نشانوں کوتخصیص کے ساتھ طلب کیا تھا جیسے مردہ زندہ کرنا وغیرہ اس پر ان کی خدمت میں خط لکھا گیا کہ تخصیص ناجائز ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے ارادہ اور اپنے مصالح کے موافق نشان ظاہر کرتا ہے اور جب کہ نشان کہتے ہی اس کو ہیں جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو تو پھر تخصیص کی کیا حاجت ہے۔ کسی نشان کے آزمانے کے لئے یہی طریق کافی ہے کہ انسانی طاقتیں اُس کی نظیر نہ پیدا کر سکیں۔ اس خط کا جواب ڈاکٹر صاحب نے کوئی نہیں دیا تھا اب پھر ڈاکٹر صاحب نے نشان دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور مہربانی فرما کر اپنی اُس پہلی قید کو اُٹھا لیا ہے اور صرف نشان چاہتے ہیں۔ کوئی نشان ہو مگر انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو لہٰذا آج ہی کی تاریخ