یہ کیسا مقولہ ہے۔ قول آں عزیز: ذات پات نہ پوچھے کو ۔ہر کو بھجے سو ہرکا ہو۔ اقول یہ سچ بات ہے اس سے اسلام بحث نہیں کرتا کہ کس قوم اور کس ذات کا آدمی ہے جو شخص راہِ راست طلب کرے گا خواہ وہ کسی قوم کا ہو خدا سے ملے گا۔ مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ خواہ کسی مذہب کا پابند ہو خدا کو مل سکتا ہے۔ کیونکہ جب تک پاک مذہب اختیار نہیں کرے گا تب تک خدا ہرگز نہیں پائے گا۔ مذہب اور چیز ہے اور قوم اور چیز۔ قول آں عزیز: یہی وجہ ہے کہ پیروان وید نے کسی شخص کی پیروی نجات کے لئے محصور نہیں رکھی۔ اقول جس شخص کے نزدیک وید کے مؤلف کی پیروی نجات کے لئے محصور نہیں وہ وید کا مکذب ہے۔ آپ خود بتلائیں کہ اگر مثلاً ایک شخص وید کے اصولوں اور تعلیموں کو نہیں مانتا نہ نیوگ کو مانتا ہے نہ اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ اولاد کی خواہش کے لئے اپنی زندگی میں اپنی جورو کو ہمبستر کرا دے اور یا وہ اس بات کو نہیں مانتا کہ پرمیشور نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا اور تمام روحیں اپنے اپنے وجود کی آپ ہی خدا ہے اور یا وہ اگنی،ٔ دایو، سورج وغیرہ کی پرستش کو نہیں مانتا غرض وہ بہرطرح وید کو ردی کی طرح خیال کرتا ہے یہاں تک کہ جس پرمیشور کو وید نے پیش کیا ہے اُس کو پرمیشور ہی نہیں جانتا تو کیاایسے آدمی کے لئے نجات ہے یا نہیں۔ اگر نجات ہے تو آپ وید سے ایسی شرتی پیش کریں جو ان معنوں پر مشتمل ہو اور اگر نجات نہیں تو پھر آپ کا یہ قول صحیح نہ ہوا کیونکہ ہم لوگ بھی تو صرف اس قدر کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن شریف کی تعلیموں کو نہیں مانتا اُس کو ہرگز نجات نہیں اور اس جہان میں وہ اندھے کی طرح بسر کرے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ومن یتبغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھوفی الاخرت من الخسرین۔ یعنی قرآن نے جو دین اسلام پیش کیا ہے جو شخص قرآنی تعلیم کو قبول نہیں کرے گا وہ مقبول خدا ہرگز نہ ہوگا اور مرنے کے بعد وہ زیاں کاروں میں ہوگا۔ یہ کہنا کہ کسی شخص کی پیروی وید کی رو سے درست نہیں یہ غلط ہے جب اُس کی کتاب کی پیروی کی تو خود اُس کی پیروی ہوگئی۔ اگر ہندوصاحبان