کہ ایک ذرّہ بھی اُس نے پیدا نہیں کیا۔ وہ مذہب قبولیت کے لائق ہے جو ثبوت کا روشن چراغ اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ اسلام ہے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ جو زبردست نشان اور معجزات اسلام میں ظاہر ہوتے ہیں وہ کسی دوسرے مذہب میں بھی ہوتے ہیں تو ہم آپ کی اس بات کو بشوق سنیں گے بشرطیکہ آپ اس بات کا ثبوت دیں مگر یاد رکھیں کہ یہ آپ کے لئے ہرگز ممکن نہیں ہوگا کہ اس زمانہ میں کوئی ایسا زندہ شخص بھی دکھلا سکیں کہ وہ برکات اور آسمانی نشان جو مجھے ملے ہیں ان میں وہ مقابلہ کر کے دکھلاوے اب میں آپ کے بعض خیالات کی غلطی کو رفع کرتا ہوں۔
قول آں عزیز: خدا نے کافر اور مومن کو اس دنیا میں یکساں حصہ بخشا ہے۔
اقوال چونکہ خدا نے ہر ایک کو اپنی طرف بلایا ہے اس لئے سب کو ایسی قوتیں بخشی ہیں کہ اگر وہ ان قوتوں کو ٹھیک طور پر استعمال کریں تو منزل مقصود تک پہنچ جائیں مگر تجربہ سے ثابت ہے کہ بجز اس کے کوئی اسلام پر قدم مارے ہر ایک شخص ان قوتوں کو بے اعتدالی سے استعمال میں لاتا ہے اور منزل مقصود تک نہیں پہنچتا۔
قول آں عزیز: بہت مشکل ہے کہ تمام لوگ ایک ہی مذہب پر چلیں۔
اقول سچے طالب کے لئے ہر ایک مشکل سہل کی جاتی ہے۔
قول آں عزیز: اگرچہ ریل پر چلنے والے بہت آرام پاتے ہیں لیکن اگر کوئی پیادہ پا سفر اختیار کرے تو ریل والے اس کو کافر نہیں کہتے۔
اقول یہ قول دینی معاملہ پر چسپاں نہیں ہے اور قیاس مع الفارق ہے۔ خدا کے ملنے کی ایک خاص راہ ہے یعنی معجزات اور نشانوں سے یقین حاصل ہونا۔ اسی پر تزکیہ نفس موقوف ہے اور یقین کے اسباب بجز اسلام کے کسی مذہب میں نہیں۔
قول آں عزیز: خدا بے انت ہے۔ سو ہم بے انت کو اُسی وقت محسوس کر سکتے ہیں جب پابندی شرع سے باہر ہو جائیں۔
اقول شرع عربی لفظ ہے جس کے معنی ہی راہ۔ یعنی خدا کے پانے کی راہ۔ پس آپ کے کلام کا خلاصہ یہ ہوا کہ جب ہم خدا کے پانے کی راہ چھوڑ دیں تب ہمیں ملے گا۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ