صرف موجودہ اجسام یا اراوح کو جو کسی اتفاق سے خودبخود قدیم سے چلے آتے ہیں جوڑنا اس کا کام ہے لیکن یہ تمام بھروسے بے اصل ہیں ان کے ساتھ کوئی دلیل نہیں۔ زندہ خدا کو خوش کرنا نجات کے طالب کا اصول ہونا چاہئے۔دنیا رسوم و عادات کی قید میں ہے ہر ایک شخص جو کسی مذہب میں پیدا ہوتا ہے اکثر بہرحال اُسی کی حمایت کرتا ہے لیکن یہ طریق صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح یہ بات ہے کہ جس مذہب کی رو سے زندہ خدا کا پتہ مل سکے اور بڑے بڑے نشانوں اور معزات سے ثابت ہو کہ وہی خدا ہے اس مذہب کو اختیار کرنا چاہئے کیونکہ اگر درحقیقت خدا موجود ہے اور اُس کی ذات کی قسم کہ درحقیقت وہ موجود ہے تو یہ اس کا کام ہے کہ وہ بندوں پر اپنے تئیں ظاہر کرے اورانسان جو محض اپنی اٹکلوں سے خیال کرتا ہے کہ اس جہان کا ایک خدا ہے اور وہ اٹکلیں سچی تسلی دینے کیلئے کافی نہیں اور جیسا کہ ایک محجوب اُن روپوں پر بھروسہ کرتا ہے جو اُس کے صندوق میں بند ہیں اور اُس زمین پر جو اُس کے قبضہ میں ہے اور اُن باغات پر جو ہمیشہ صدہا روپیہ کی آمدنی نکالتے ہیں اور اُن لائق بیٹوں پر جو بڑے بڑے عہدوں پر سرفراز ہیں اور ماہ بماہ اپنے باپ کو ہزار ہا روپیہ سے مدد کرتے ہیں وہ محجوب ایسا بھروسہ خدا تعالیٰ پر ہرگز نہیں کر سکتا اس کا کیا سبب ہے یہی سبب ہے کہ اُس پر حقیقی ایمان نہیں۔ ایسا ہی ایک غافل جیسا کہ طاعون سے ڈرتا ہے اور اُس گاؤں میں داخل نہیں ہوتا جو طاعون سے ہلاک ہو رہا ہے اور جیسا کہ وہ سانپ سے ڈرتا ہے اور اُس سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا جس میں سانپ ہو یا سانپ ہونے کا گمان ہو اور جیسا کہ وہ شیر سے ڈرتا ہے اور اُس بن میں داخل نہیں ہوتا جس میں شیر ہو۔ ایسا ہی وہ خدا سے نہیں ڈرتا اور دلیری سے گناہ کرتا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ اگرچہ وہ زبان سے کہتا ہے مگر دراصل خدا تعالیٰ سے غافل اور بہت دور ہے۔ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا کوئی امر سہل نہیں ہے۔ بلکہ جب تک خدا تعالیٰ کے کھلے کھلے نشان ظاہر نہ ہوں اُس وقت تک انسان سمجھ بھی نہیں سکتا کہ خدا بھی ہے۔ گو تمام دنیا اپنی زبان سے کہتی ہے کہ ہم خداپر ایمان لائے مگر اُن کے اعمال گواہی دے رہے ہیں کہ وہ ایمان نہیں لائے۔