سچا ایمان تجربہ کے بعد حاصل ہوتا ہے مثلاً جب انسان باربار کے تجربہ سے معلوم کر لیتا ہے کہ سم الفار ایک زہر ہے جو نہایت قلیل مقدار اُس کی قاتل ہے تو وہ سم الفار کھانے سے پرہیز کرتا ہے۔ تب اُس وقت کہہ سکتے ہیں کہ وہ سم الفار کے قاتل ہونے پر ایمان لایا۔ سو جو شخص کسی پہلو سے گناہ میں گرفتار ہے وہ ہنوز خدا پر ایمان ہرگز نہیں لایا اور نہ اس کو شناخت کیا۔
دنیا بہت سی فضولیوں سے بھری ہوئی ہے اور لوگ ایک جھوٹی منطق پر راضی ہو رہے ہیں۔ مذہب وہی ہے جو خدا تعالیٰ کو دکھلاتا ہے اور خدا سے ایسا قریب کر دیتا ہے کہ گویا انسان خدا کو دیکھتا ہے اور جب انسان یقین سے بھر جاتا ہے تو خدا تعالیٰ سے اس کا خاص تعلق ہو جاتا ہے۔ وہ گناہ سے اور ہر ایک ناپاکی سے خلاصی پاتا ہے اور اس کا سہارا صرف خدا ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے خاص نشانوں سے اور اپنی خاص تجلی سے اور اپنے خاص کلام سے اس پر ظاہر کر دیتا ہے کہ میں موجود ہوں تب اس روز سے وہ جانتا ہے کہ خدا ہے اور اسی روز سے وہ پاک کیا جاتا ہے اور اندرونی آلائشیں دور کی جاتی ہیں۔ یہی معرفت ہے جو بہشت کی کنجی ہے مگر یہ بغیر اسلام کے اور کسی کو بھی میسر نہیں آتی۔ یہی خدا تعالیٰ کا ابتداء سے وعدہ ہے جو وہ اُنہی پر ظاہر ہوتا ہے جو اُس کے پاک کلام کی پیروی کرتے ہیں۔ تجربہ سے زیادہ کوئی گواہی نہیں۔ پس جب کہ تجربہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا اپنے تئیں بجز اسلام کے کسی پر ظاہر نہیں کرتا اور کسی سے ہمکلام نہیں ہوتا اور کسی کی اپنے زبردست معجزات سے مدد نہیں کرتا تو ہم کیونکر مان لیں کہ دوسرے مذہب میں ایسا ہو سکتاہے۔
ابھی تھوڑے دن کی بات ہے کہ لیکھرام نامی ایک برہمن جو آریہ تھا قادیان میں میرے پاس آیا اور کہا کہ وید خدا کا کلام ہے۔ قرآن شریف خدا کا کلام نہیں ہے۔ میں نے اُس کو کہا کہ چونکہ تمہارا دعویٰ ہے کہ وید خدا کا کلام ہے مگر میں اُس کو اُس کی موجودہ حیثیت کے لحاظ سے خدا کا کلام نہیں جانتا کیونکہ اس میں شرک کی تعلیم ہے اور کئی ناپاک تعلیمیں ہیں۔ مگر میں قرآن شریف کو خدا کا کلام جانتا ہوں کیونکہ نہ اس میں شرک کی تعلیم ہے اور