یہ تو ظاہر ہے کہ خواہ عقائد ہوںیا اعمال دو حال سے خالی نہیں یا سچے ہوتے ہیں یاجھوٹے۔ پھر جھوٹے کو اختیار کرنا دھرم نہیں ہے مثلاً وید کی طرف یہ ہدایت منسوب کی جاتی ہے کہ اگر کسی عورت کے چند سال تک بیٹا نہ ہو بیٹیاں ہی ہوں تو اس کا خاوند اپنی عورت کو دوسرے سے ہمبستر کرا سکتاہے اور ایسا سلسلہ اُس وقت تک جاری رہ سکتا ہے جب تک ایک بیگانہ مرد کے نطفہ سے گیارہ فرزند نریہ پیدا ہو جائیں اور شاکت مت میں جو وید کی طرف ہی اپنے تئیں منسوب کرتے ہیں یہ ہدایت ہے کہ اُن کے خاص مذہبی میلوں میں ماں اور بہن سے بھی جماع درست ہے اور ایک شخص دوسرے کی عورت سے زنا کر سکتا ہے۔ اسی طرح دنیا میں ہزار ہا ایسے مذہب ہیں کہ اگر ان کا انکار کیا جاوے تو آپ انگشت بدنداں رہیں گے پھر کیونکر ممکن ہے کہ انسان صلح کاری اختیار کرکے اُن لوگوں کی ہاں سے ہاں ملاوے ایسا ہی عقائد کا حال ہے بعض لوگ دریاؤں کی پوجا کرتے ہیں، بعض لوگ آگ کی، بعض سورج کی، بعض چاند کی، بعض درختوں کی، بعض سانپوں اور بلیوں اور بعض انسانوں کو درحقیقت خدا سمجھتے ہیں تو کیا ممکن ہے کہ ان سب کو راستباز سمجھا جاوے۔
جو لوگ دنیا کی اصلاح کے لئے آتے ہیں اُن کا فرض ہوتا ہے کہ سچائی کو زمین پر پھیلا دیں اور جھوٹ کی بیخ کنی کریں۔ وہ سچائی کے دوست اور جھوٹ کے دشمن ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی راستباز کو چند ڈاکو یا چور یہ ترغیب دیں کہ بذریعہ ڈاکو یا کیسہ بُری یا نقب زنی کے کوئی مال حاصل کرنا چاہئے تو کیا جائز ہوگا کہ وہ راستباز اُن کیساتھ ہو کر ایسے جرائم کا ارتکاب کرے۔ پس مذہب کسی چیز کا نام ہے اسی بات کا نام تو مذہب ہے کہ جو عقائد یا اعمال بُرے اور گندے اور ناپاک ہوں اُن سے پرہیز کیا جاوے اور ایسی کتابیں جو ناپاک عقائد یا اعمال سکھلاتی ہیں اُن کو اپنا پیشوا اور رہبر نہ بنایا جاوے۔ میں اس بات کو کسی طرح سمجھ نہیں سکتا کہ ہر ایک مذہب سے صلح رکھی جاوے اور اُن کی ہاں میں ہاں ملائی جاوے۔ کیونکہ اگر ایسا کیا جاوے تو دنیا میں کوئی بدی بدی نہیں رہے گی اور ہر قسم کے بدعقائد اور بداعمال نیکیوں میں داخل ہو جائیں گے حالانکہ جو شخص ایک نظر