لالہ بھیم سین صاحب کے نام
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہم مکتب ایک لالہ بھیم سین صاحب تھے اور زمانہ قیام سیالکوٹ میں حضرت اقدس کی ان کے ساتھ بڑی راہ و رسم تھی۔ لالہ بھیم سین صاحب کی بابت اس خط کے شائع کرتے وقت مجھے معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا فوت ہوچکے ہیں مگر اس میں کوئی کلام نہیں کہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑی محبت تھی اور خط وکتابت بھی رہتی تھی۔ جن ایام میں گورداسپور میں مقدمات کا سلسلہ شروع تھا تو لالہ بھیم سین صاحب نے اپنے بیٹے کی خدمات بھی پیش کی تھیں جو بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے آ چکے تھے۔ حضرت مسیح موعود نے شکریہ کے ساتھ ان کی خدمات کو کسی دوسرے وقت پر عندالضرورت ملتوی کر دیا تھا۔ غرض حضرت صاحب کو لالہ بھیم سین صاحب سے محبت اور لالہ بھیم سین کو حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام سے اخلاص تھا۔
۱۴؍ جون ۱۹۰۳ء کو حضرت مسیح موعود نے لالہ بھیم سین کو ایک خط لکھا تھا جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ میں لالہ بھیم سین صاحب کے فرزند ارجمند سے خط و کتابت کر کے حضرت اقدس کی بعض اور تحریریں بھی جو میسر آ سکیں حاصل کرنی چاہتا ہوں مگر سردست یہ ایک خط یہاں درج کر دیا جاتا ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے۔
(خاکسار یعقوب علی عفی اللہ عنہ)
٭٭٭
آپ نے اپنے خط میں کچھ مذہبی رنگ میں بھی نصائح تحریر فرمائی تھیں مجھ کو اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ آپ کو اس عظیم الشان پہلو سے بھی دلچسپی ہے۔ درحقیقت چونکہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے اور تھوڑی دیر کے بعد ہم سب لوگ اصلی گھر کی طرف واپس کئے جائیںگے۔ اس لئے ہر ایک کا فرض ہونا چاہئے کہ دین اور مذہب کے عقائد کے معاملہ میں پورے غور سے سوچے پھر جس طریق کو خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے موافق پاوے اُسی کے اختیار کرنے میں کسی ذلت اور بدنامی سے نہ ڈرے اور نہ اہل و عیال اور خوشیوں اور فرزندوں کی پروا رکھے۔ ہمیشہ صادقوں نے ایسا ہی کیا ہے۔ سچائی کے اختیار کرنے میں اُنہوں نے بڑے بڑے دُکھ اُٹھائے۔