میں جمع ہوگا اور اگر کسی اتفاق سے آپ پر افلاس طاری ہے تو قوم کے لوگ ایسے معزز اور سرگردہ سے امداد وغیرہ کے بارے میں کب دریغ کریں گے بلکہ وہ تو سنتے ہی ہزار ہا روپیہ آپ کے قدموں پر رکھ دیں گے اور صرف آپ کی ایک زبان کے اشارہ سے روپیوں کا ڈھیر جمع ہو جائے گا۔ خدانخواسہ ایسا کیوں ہونے لگا کہ آریہ سماج کے دولتمند اور ذی مقتدرت لوگ آپ کو چند روز کے لئے بطور امانت روپیہ دینے سے انکار کریں اور آپ کی دیانتداری اور امانت گزاری میں اُن کو کلام ہو کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ادنیٰ ادنیٰ آدمی جیسے چوہڑے چمار یا سانسی اپنی قوم میں کچھ ذرا سا اعتبار رکھتے ہیں وہ بھی اپنی برادری میں اس قدر مسلم العزت ہوتے ہیں کہ قوم کے ذی مقدرت لوگ کسی مشکل کے وقت صدہا روپیہ سے بطور قرضہ وغیرہ اُن کی مدد کرتے ہیں اور آپ تو بقول آپ کے بڑے ذی عزت آدمی ہیں جن کی عزت سارے آریہ سماجوں میں تسلیم و قبول کی گئی ہے۔ ماسوا اس کے جو روپیہ صرف کچھ مدت کے لئے امانت کے طور پر آپ کے ہاتھ میں دیں گے یہ نہیں کہ وہ روپیہ آپ کی ملک کر دیں گے۔ قصہ کوتاہ کہ آج ہم یہ خط رجسٹری کرا کر آپ کی خدمت میں بھیجتے ہیں اور اگر بیس دن تک آپ نے ہمارا جواب نہ بھیجا اور قادیان میں آ کر ایک سال تک ٹھہرنے کیلئے بات نہ ٹھہرائی اور ان شرائط کو جو عین انصاف اور حق پرستی پر مبنی ہیں قبول نہ کیا تو پھر بعد گزرنے بیس روز کے یہ حال کنارہ کشی آپ کا چند اخباروں میں شائع کرا کر لوگوں پر ثابت کیا جاوے گا کہ آپ کا ایک سال تک قادیان میں ٹھہرنے کے لئے مجھ سے دریافت کرنا سراسر لاف و گذاف پر مبنی تھا نہ آپ کی نیت صاف و درست تھی نہ آپ کی ایسی حیثیت و عزت تھی جس کا آپ نے وعدہ کیا تھا۔
اب ہم اس خط کو ختم کرتے ہیں اور مدت مقررہ تک ہر روز آپ کے جواب کے منتظر رہیں گے۔
والسلام علی من اتبع الہدیٰ
از قادیان ضلع گورداسپور
مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۸۸۵ء
خاکسار
مرزا غلام احمد