چھاپنے کے وقت انتظام کیا ہے اُس کو خوب سوچ لیں اور میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ آپ دو تین روز کے لئے قادیان میں آجائیں اور بالمواجہہ گفتگو کر کے اس بات کا تصفیہ کریں مجھے یہ بھی منظور ہے کہ دو تین شریف اور معزز آریہ جیسے منشی جیونداس لاہور میں ہیں وہ مجھ سے ملاقات کر کے جو اس بارہ میں تصفیہ کریں وہی قرار پاجائے۔ میں ناحق کی ضد کرنا نہیں چاہتا نہ کوئی حیلہ بہانہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ غور سے میرے خط کو پڑھیں اور یہ جو آپ نے اپنے خط کے اخیر پر لکھ دیاہے کہ قادیان کے آریہ لوگوں سے آپ کی کراماتی مایہ کی قلعی کھل چکی ہے یہ الفاظ بھی منصفین کے سامنے پیش کرنے کے لائق ہیں جس حالت میں قادیان کے بعض آریہ جو میرے پاس آمدو رفت رکھتے ہیں اب تک زندہ موجود ہیں اور اس عاجز کے نشانوں اور خوارق کے قائل اور مقر ہیں تو پھر نہ معلوم کہ آپ نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ وہ لوگ منکر ہیں اگر آپ راستی کے طالب تھے تو مناسب تھا کہ آپ قادیان میں آ کر میرے روبرو اور میرے مواجہ میں اُن لوگوں سے دریافت کرتے تا جو امر حق ہے آپ پر واضح ہو جاتا۔ مگر یہ بات کس قدر دیانت اور انصاف سے بعید ہے کہ آپ دور بیٹھے قادیان کے آریوں پر ایسی تہمت لگارہے ہیں ذرا آپ سوچیں کہ جس حالت میں میں نے اُنہیں آریوں کا نام حصہ سوم و چہارم میں لکھ کر اُن کا شاہد خوارق ہونا حصص مذکورہ میں درج کر کے لاکھوں آدمیوں میں اس واقعہ کی اشاعت کی ہے تو پھر اگر یہ باتیں دروغ بے فروغ ہوں تو کیونکر وہ لوگ اب تک خاموش رہتے بلکہ ضرور تھا کہ اس صریح کے جھوٹ کے ردّ کرنے کے لئے کئی اخباروں میں اصل کیفیت چھپواتے اور مجھ کو ایک دنیا میں رسوا اور شرمندہ کرتے۔ سو منصف آدمی سمجھ سکتا ہے کہ وہ لوگ باوجود شدت مخالفت اور عناد کے اسی وجہ سے خاموش اور لاجواب رہے کہ جو جو میں نے شہادتیں اُن کی نسبت لکھیں وہ حق محض تھا اور آپ پر لازم ہے کہ آپ اس ظن فاسد سے مخلصی حاصل کرنے کے لئے قادیان آ کر اس بات کی تصدیق کر جائیں ۔
تا سیہ رد شود کہ دروغن باشد
جواب سے جلد تر مطلع کریں۔ والدعاء
(راقم مرزا غلام احمد از قادیان۔ ۱۲؍ اپریل ۱۸۸۵ء)