آپ کے اقرار نامہ اور ہمارے اقرار کے چند اخباروں میں چھپوایا جاوے لیکن جب تک آپ اس طور سے اپنا سرکردہ ہونا ثابت نہ کریں تب تک آپ عوام الناس میں سے محسوب ہونگے۔ ہمارے خط کو غور سے دیکھو اور اس کے منشاء کے موافق قدم رکھو ان خطوط سے اصل مطلب تو ہمارا یہی تھا کہ قوموں کے سرکردہوں کو قائل یا لاجواب کر کے کل قوموںپر (ہندو ہوں یا عیسائی) اتمام حجت کیا جاوے۔ پس جو لوگ سرکردہ ہی نہیں ان کے لاجواب یا قائل کرنے سے ہمارا مطلب کیونکر پورا ہوگا اور حصہ پنجم کے چھپنے کی نوبت کب آئے گی اور اگر خدا توفیق دیوے تو اپنے آریہ بھائیوں کی شہادت کو ہی کافی سمجھو۔ کیونکہ وہ بھی تمہارے بھائی ہیں۔ والدعاء (مورخہ ۱۷؍ اپریل ۱۸۸۵ء مطابق یکم رجب ۱۳۰۲ھ) ٭٭٭ بسم اللّہ الرحمٰن الرحیم مشفق پنڈت لکھیرام صاحب۔ بعد ماوجب آپ کا خط مرقومہ ۹؍ اپریل ۱۸۸۵ء مجھ کو ملا آپ نے بجائے اس کے کہ میرے جواب پر انصاف اور صدق دلی سے غور کرتے ایسے الفاظ دُور از تہذیب و ادب اپنے خط میں لکھے ہیں جو میں خیال نہیں کر سکتا کہ کوئی مہذب آدمی کسی سے خط و کتابت کر کے ایسے الفاظ لکھنا روا رکھے۔ پھر آپ نے اسی اپنے خط میں تمسخر اور ہنسی کی راہ سے دین اسلام کی نسبت توہین اور ہتک کے کلمات تحریر کئے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے کے ہجو ملیح کے طرح مکروہ اور نفرتی باتوں کو پیش کیا ہے اگرچہ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کس قدر طالب حق ہیں لیکن پھر بھی میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کے سخت اور بدبودار باتوں پر صبر کرکے دوبارہ آپ کو اپنے منشاء سے مطلع کروں کیونکہ یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ شاید آپ نے میرے پہلے خط کو غور سے نہیں پڑھا اور اشتعال طبع مانع تفکر و تدبر ہو گیا سو اب میں پھر اپنے اُسی جواب کو دوہرا کر تحریر کرتا ہوں صاحب من میں نے جو پہلے خط میں لکھا تھا اس کا خلاصہ مطلب یہی ہے کہ جو اَب میں گزارش کرتا ہوں یعنی ان دنوں میں اتمام حجت کی غرض سے میںنے یہ مناسب سمجھا کہ سات سَو خط چھپوا کر