مرعی نہیں رکھا۔ اس کے جواب میں میں صرف اس قدر عرض کرنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس وقت میری اور آپ کی کل تحریریں رسالہ برادر ہند میں مشتہر ہو جاویں گی اُس وقت انصاف پسند ناظرین خود ہی تصیفہ کر لیں گے۔ آپ کا یہ فرمانا صحیح ہے یا غیر صحیح۔ اگر آپ لکھیں تو اگلے مہینہ کے رسالہ سی اس بحث کو مشتہر کرنا شروع کر دوں۔ لاہور ۱۲؍ جون ۱۸۷۹ء آپ کا نیاز مند شیونارائن۔ اگنی ہو تری مکرمی جناب پنڈت صاحب آپ کا مہربانی نامہ عین اُس وقت میں پہنچا کہ جب میںبعض ضروری مقدمات کے لئے امرتسر کی طرف جانے کو تھا چونکہ اس وقت مجھے دو گھنٹہ کی بھی فرصت نہیں اس لئے آپ کا جواب واپس آ کر لکھوں گا اور انشاء اللہ تعالیٰ تین روز بغایت درجہ چار روز کے بعد واپس آ جاؤں گا اور پھر آتے ہی جواب لکھ کر خدمت گرامی میں ارسال کروں گا۔آپ فرماتے ہیں کہ یہ مضامین برادر ہند میں درج ہونگے۔ مگر میری صلاح یہ ہے کہ ان مضامین کے ساتھ دو ثالثوں کی رائے بھی ہو تب اندراج پاویں مگر اب مشکل یہ کہ ثالث کہاں سے لاویں ناچار یہی تجویز خوب ہے کہ آپ ایک فاضل گرامی صاحب تالیف و تصنیف کا براہم سماج کے فضلاء میں سے منتخب کر کے اطلاع دیں جو ایک خدا ترس اور فروتن اور محقق اور بے نفس اور بے تعصب ہو اور ایک انگریز کہ جس کی قوم کی زیرکی بلکہ بے نظیری کے آپ قائل ہیں انتخاب فرما کر اس سے بھی اطلاع بخشیں تو اغلب ہے کہ میں ان دونوں کو منظور کروں گا اور میں نے بطور سرسری سنا ہے کہ آپ کے برہمو سماج میں ایک صاحب کیشب چندر نام لئیق اور دانا آدمی ہیں اگر یہی سچ ہے تو وہی منظور ہیں اُن کے ساتھ ایک انگریز دیجئے۔ مگر مصنفوں کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ صرف اتناہی لکھیں کہ ہماری رائے میں یہ ہے یا وہ ہے بلکہ ہر ایک فریق کی دلیل کو اپنے بیان سے توڑنا یا بحال رکھنا ہوگا۔ دوسرے یہ مناسب ہے کہ اس مضمون کو رسالہ میں متفرق طور پر درج نہ کیا جائے کہ اس میں منصف کو دوسرے نمبروں کا مدت دراز تک انتظار کرنا پڑتا ہے بلکہ مناسب ہے کہ یہ سارا مضمون ایک ہی دفعہ برادر ہند میں درج ہو یعنی تین تحریریں ہماری طرف سے اور تین ہی آپ کی طرف سے ہوں